السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض امام نماز تراویح پڑھاتے ہوئے چار یا اس سے بھی زیادہ رکعتیں ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھا دیتے ہیں۔ دو رکعتوں کے درمیان بیٹھتے بھی نہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ یہ سنت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس عمل کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اکثر اہل علم کے نزدیک یہ عمل غیر مشروع بلکہ مکروہ یا حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یہ ہے:
(صلاة الليل مثني مثني) (صحيه البخاري‘ ابواب الوتر‘ باب ماجاء في الوتر‘ ح: 990 وصحيح مسلم‘ صلاة المسافرين‘ باب صلاة الليل مثني مثني...الخ‘ ح:749)
’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔‘‘
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يصلي فيما بين ان يفرع من صلاة العشاء الي الفجر‘ احدي عشرة ركعة‘ يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة)(صحيح مسلم‘ صلاة المسافرين‘ باب صلاة الليل وعدد ركعات النبي صلي الله عليه وسلم...الخ‘ ح: 736)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فارغ ہونے سے فجر تک کے درمیانی وقفے میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے۔ ہر دو رکعتون کے بعد سلام پھیر دیا کرتے اور ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔‘‘ (اس مضمون کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ جو مشہور حدیث ہے:
( (كان) يصلي (من الليل) اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن‘ ثم يصلي اربعا فلا تسال عن حسنهن وطولهن) (صحيح البخاري‘ التهجد‘ باب قيام النبي صلي الله عليه وسلم بالليل...الخ‘ ح: 1147 وصحيح مسلم‘ صلاة المسافرين‘ باب صلاة الليل وعدد ركعات النبي صلي الله عليه وسلم...الخ‘ ح: 738)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو) چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے، ان کی خوبصورتی اور لمبائی کے بارے میں مت پوچھئے۔ آپ پھر چار رکعتیں اور پڑھتے اور ان کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھئے۔‘‘
تو اسے سے مراد بھی یہی ہے کہ آپ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیتے تھے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آپ ایک ہی سلام سے چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے تھے کیونکہ آپ سے مروی سابقہ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ دو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ نیز آپ نے خود یہ فرمایا ہے:
(صلاة الليل مثني مثني) (صحيه البخاري‘ ابواب الوتر‘ باب ماجاء في الوتر‘ ح: 990 وصحيح مسلم‘ صلاة المسافرين‘ باب صلاة الليل مثني مثني...الخ‘ ح:749)
’’رات کی نماز دو رکعت ہے۔‘‘
جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے، نیز اصول یہ ہے کہ بعض احادیث بعض کی تصدیق اور تفسیر بیان کرتی ہیں، لہذا مسلمان کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ تمام احادیث کو قبول کر لے اور مبین کے ساتھ مجمل کی تفسیر کرے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب