السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نماز تراویح صرف سنت ہے یا سنت مؤکدی؟ ہم اسے کس طرح ادا کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ سنت مؤکدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
(من قام رمضان ايمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه) (صحيح البخاري‘ صلاة التراويح‘ باب فضل من قام رمضان‘ ح: 2009 وصحيح مسلم‘ صلاة المسافرين‘ باب الترغيب في قيام رمضان ...الخ‘ ح: 759)
’’جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند راتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہ نماز پڑھائی اور پھر اس خدشہ سے نہ پڑھائی کہ یہ فرض ہی نہ کر دی جائے [1]لیکن صحابہ کرام کو آپ نے یہ ترغیب دی کہ وہ اپنے طور پر اس نماز کو ضرور پڑھیں لہذا کوئی اکیلا پڑھ لیتا، کوئی دو مل کر اور کوئی تین مل کر جماعت سے ادا کر لیتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں (جب کہ تراویح کی فرضیت کا خطرہ دور ہو گیا تھا) یہ مناسب سمجھا کہ تمام لوگ ایک امام کی اقتدا میں نماز با جماعت ادا کریں[2] کیونکہ اس طرح سب کو نماز با جماعت ادا کرنے اور قرآن مجید سننے کا موقع نصیب ہو گا اور تب سے اب تک یہ سنت با جماعت ادا کرنے کا مسلمانوں میں معمول جاری ہے۔ اس زمانے میں اس نماز کی تئیس رکعتیں ادا کی جاتی تھیں، لوگ اس قدر لمبی قرائت کرتے کہ سورۃ البقرہ کو بارہ اور کبھی آٹھ رکعتوں میں پڑھ لیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کی رکعات کی تعداد چونکہ معین نہیں فرمائی لہذا اس سلسلہ میں کافی گنجائش ہے کہ جو چاہے رکعات کی تعداد کم کر لے اور ارکان کو طول دے لے اور جو چاہے رکعات کی تعداد کو بڑھا لے۔
[1] صحیح بخاري، التراویح، باب فضل من قام رمضان، حدیث: 2012 وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الترغیب في قیام رمضان...الخ، حدیث: 761
[2] صحیح بخاري، صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، حدیث: 2010
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب