السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نے 1386ھ کے رمضان کے روزے ایک حقیقی عذر یعنی اپنے بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے چھوڑے تھے۔ وہ بچہ اب بڑا ہو کر چوبیس سال کا ہو گیا ہے لیکن اس عورت نے اب تک روزوں کی قضا نہیں دی۔ اللہ عظیم کی قسم! قضا نہ دینے کا سبب سستی اور قصد و ارادہ نہیں بلکہ جہالت ہے تو رہنمائی فرمائیں کہ اس بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس عورت کے لیے یہ واجب ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس سال کے رمضان کے دنوں کے بقدر روزے رکھے خواہ متفرق طور پر رکھ لے اور اس تاخیر کی وجہ سے کفارہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ کفارہ یہ ہے کہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے کیونکہ جو شخص قضا میں اس قدر تاخیر کر دے کہ اگلا رمضان آ جائے تو اس کے لیے قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتا ہے۔ پورے مہینے کے کفارہ کے طور پر پینتالیس کلو چاول کافی ہوں گے۔ اس عورت کے لیے یہ واجب تھا کہ اگر اسے معلوم نہ تھا تو دین کے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھ کر تحقیق کر لیتی کیونکہ یہ مسئلہ مشہورو معروف ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ جو شخص کسی عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دے تو اس کے لیے فوری طور پر قضا لازم ہے اور کسی عذر کے بغیر قضا میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب