السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جس مسافر کو رمضان میں روزہ چھوڑ دینے کی اجازت ہے، کیا اس کے لیے ایسی کوئی شرط ہے کہ وہ سفر پیدل کرے یا سواری پر؟ کیا جانور کی سواری یا گاڑی اور ہوائی جہاز کی سواری کے اعتبار سے کوئی فرق ہے؟ کیا سفر کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ اس میں مسافر کے لیے ناقابل برداشت تھکاوٹ وغیرہ ہو؟ مسافر کو اگر روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے یا روزہ چھوڑ دینا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس سفر میں نماز قصر کرنا جائز ہے اس میں مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا بھی جائز ہے، خواہ سفر پیدل ہو یا سواری پر اور سواری خواہ گاڑی ہو یا ہوائی جہاز وغیرہ اور خواہ سفر میں ایسی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہو جس میں روزہ مشکل ہو یا تھکاوٹ لاحق نہ ہوتی ہو، خواہ سفر میں بھول پیاس لگتی ہو یا نہ لگتی ہو۔ کیونکہ شریعت نے اس سفر میں نماز قصر کرنے اور روزہ چھوڑنے کی مطلقا اجازت دی ہے اور اس میں سواری کی نوعیت یا تھکاوٹ اور بھوک پیاس وغیرہ کی کوئی قید نہیں لگائی۔ حضرات صحابہ کرام نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ اور اس کے بارے میں کسی ایک نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ سفر میں روزہ نہ رکھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ذهب المفطرون اليوم بالاجر) (صحيح البخاري‘ الجهاد‘ باب فضل الخدمة في الغزو‘ ح: 2890 وصحيح مسلم‘ الصيام‘ باب اجر المفطر في السفر...الخ‘ ح: 1119)
’’آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔‘‘
کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(انكم قد ذنوبكم من عدوكم‘ والفطر اقوي لكم)
’’تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔‘‘
یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا:
(انكم مصبحو عدوكم‘ والفطر اقوي لكم‘ فافطروا) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب اجر المفطر في السفر اذا تولي العمل‘ ح: 1120)
’’تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا، لہذا روزہ چھوڑ دو۔‘‘
چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔
اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ليس من البر ان تصوموا في السفر) صحيح مسلم‘ باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان...الخ‘ ح: 1115)
’’یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔‘‘
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے رمضان المبارک کے دوسرے جمعہ کے خطبہ میں خطیب سے سنا کہ اس مزدور کے لیے روزہ چھوڑ دینا جائز ہے جسے کام کی وجہ سے بہت محنت مشقت اٹھانا پڑتی ہو اور اس کام کے علاوہ وہ کوئی اور کام بھی نہ کر سکتا ہو تو وہ رمضان کے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے دے جس کی قیمت انہوں نے پندرہ درہم بیان کی۔ کیا اس فتویٰ کی کتاب و سنت سے کوئی صحیح دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مزدور کے لیے محض کام کاج کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر اس کام کی وجہ سے اسے بہت ہی زیادہ مسقت اٹھانا پڑتی ہو جس کی وجہ وہ دن کے وقت روزہ افطار کر دینے کے لیے مجبور و مضطر ہو جائے تو وہ اس مشقت کے ازالہ کے لیے روزہ توڑ دے اور پھر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھائے پیے اور پھر لوگوں کے ساتھ افطار کرے اور اس دن کے روزہ کی بعد میں قجا دے لے اور آپ نے جو فتویٰ ذکر کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب