سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(249) انتہائی بڑھاپے میں تکلیف (شرعی ذمہ داری) ساقط ہو جاتی ہے

  • 8792
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1277

سوال

(249) انتہائی بڑھاپے میں تکلیف (شرعی ذمہ داری) ساقط ہو جاتی ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری دادی بہت معمر تھی۔ اس نے عدم استطاعت کی وجہ سے گزشتہ دس سالوں سے روزے نہیں رکھے تھے اور اس سال ان کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے وارثوں نے جہالت کی وجہ سے ان کے روزوں کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا۔ یاد رہے کہ انہیں معاشرتی کفالت کے ادارے کی طرف سے امداد بھی ملتی تھی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ان وارثوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ گزشتہ تمام سالوں کے روزوں کا کفارہ ادا کرین اور کیا وہ کفارہ ادا نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار ہوں گے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر وہ مدت مذکورہ میں سلیم العقل تھیں اور کفارہ ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتی تھیں تو ان کے ترکہ میں سے ان دنوں کا کفارہ ادا کیا جائے گا جن میں انہوں نے روزے نہیں رکھے اور کفارہ بھی ادا نہیں کیا۔ کفارہ یہ ہے کہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو نصف صاع کے حساب سے وہ کھانا دے دیا جائے جو آپ کے علاقے میں کھانا جاتا ہے۔

اگر بے انتہا بڑھاپے کی وجہ سے ان کی عقل جاتی رہتی تھی یا وہ اپنی زندگی میں فقر کے باعث کفارہ ادا نہیں کر سکتی تھیں کہ انہیں معاشرتی کفالت کے ادارے سے صرف بقدر ضرورت ہی ملتا تھا اور کفارہ ادا کرنے کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچتا تھا تو پھر ان پر یا ان کے وارثوں پر کچھ لازم نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...١٦﴾... سورة التغابن

’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(اذا نهيتكم عن شئيء فاجتنبوه‘ واذا امرتكم بشئي فاتوا منه ما استطعتم) (صحيح البخاري‘ الاعتصام بالكتاب والسنة‘ باب اقتداء بسنن رسول الله صلي الله عليه وسلم‘ ح: 6288 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب فرض الحج مرة...الخ‘ ح: 1337)

’’جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اس سے اجتناب کرو اور جب کسی چیز کا حکم دوں تو اسے مقدور بھر بجا لاؤ۔‘‘

بے حد بڑھاپے کے باعث اگر ان کی عقل زائل ہو گئی تھی تو ان سے روزہ، نماز اور دیگر تمام شرعی فرائض ساقط ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 194

محدث فتویٰ

تبصرے