سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) کیا دوا سونگھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

  • 8769
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2064

سوال

(230) کیا دوا سونگھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دمہ کے مریض ناک کے ذریعے دوائی سونگھ کر استعمال کرتے ہیں کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دمی کی دوا جسے مریض ناک کے ذریعہ سونگھ کر استعمال کرتا ہے، وہ دوا ہوا کی نالی کے ذریعہ پھیپھڑوں تک پہنچ جاتی ہے، معدہ تک نہیں پہنچتی۔ دوا کا اس طرح استعمال نہ کھانا پینا ہے اور نہ یہ کھانے پینے کے مشابہ ہے بلکہ یہ تو دوا کے اس قطرہ کے مشابہ ہے جسے آلہ تناسل میں ڈالا جاتا ہے، نیز یہ مختلف زخموں پر رکھی جانے والی دوا، سرمہ اور اس ٹیکہ وغیرہ کے مشابہہ ہے، جس سے دوا دماغ یا بدن میں منہ اور ناک کے راستہ کے علاوہ کسی اور طریقے سے پہنچتی ہے۔ ان اشیاء کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے کہ ان کے استعمال سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ بعض نے کہا ہے کہ ان میں سے کسی بھی چیز کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور بعض نے کہا ہے کہ ان میں سے بعض سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور بعض سے نہیں ٹوٹتا جب کہ اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی بھی چیز کا نام کھانا پینا نہیں ہے لیکن جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ان اشیاء سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے وہ ان کو کھانے پینے کے حکم میں سمجھتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک چیز اپنے اختیار سے پیٹ میں جاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(بالغ في الاستنشاق الا ان تكون صائما) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب الصائم يصب عليه الماء ...الخ‘ ح: 2366 وجامع الترمذي‘ ح: 788 وسنن ابن ماجه‘ ح: 407 وسنن النسائي‘ ح: 87)

’’خوب مبالغہ کے ساتھ ناک صاف کرو الا یہ کہ تم روزے دار ہو۔‘‘

تو اس حدیث میں روزہ دار کو مبالغہ کے ساتھ ناک صاف کرنے سے اسی لیے تو منع کیا گیا ہے کہ پانی اس کے حلق یا معدہ تک نہ چلا جائے کیونکہ اس سے اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جو اپنے اختیار سے پیٹ میں جائے، اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

جن علماء کی یہ رائے ہے کہ ان اشیاء کے استعمال سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم نوا شامل ہیں۔ یہ فرماتے ہیں کہ ان اشیاء کا کھانے پینے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے اور کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ ہر اس چیز سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے جو دماغ یا بدن تک پہنچے یا کسی بھی جسمانی راستے (مساموں) سے اندر داخل ہو پیٹ تک پہنچ جائے، شریعت نے ان اوصاف میں سے کسی وصف کے بارے میں بھی یہ حکم بیان نہیں کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اسی طرح اسے مبالغہ کے ساتھ ناک صاف کرتے ہوئے پانی کے حلق یا معدہ تک پہنچ جانے کے ہم معنی قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے، پانی تو غذا ہے لہذا جب وہ حلق یا معدہ تک پہنچے تو اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا خواہ وہ منہ کے راستہ داخل ہو یا ناک کے کیونکہ ان میں سے ہر ایک راستہ ہے یہی وجہ ہے کہ مبالغہ کے بغیر محض کلی کرنے یا ناک میں پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ منہ اور ناک میں پانی ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ منہ کا راستہ ہونا تو ایک عام وصف ہے جس کی کوئی تاثیر نہیں، لہذا جب پانی وغیرہ ناک سے پہنچ جائے تو اس کا حکم یہی ہے جس طرح منہ سے پہنچنے کا حکم ہے پھر ناک اور منہ برابر ہیں اور بطاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ناک کے ذریعہ اس دوا کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا شکا ہے، کیونکہ یہ کسی طرح بھی کھانے پینے کے حکم میں نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2  صفحہ 184

محدث فتویٰ

تبصرے