السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں تئیس سال کی عمر کا ایک جوان ہوں۔ میری عمر تقریبا پندرہ سال تھی جب میرے والد صاحب نے مجھے روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ اس وقت میں کبھی روزہ رکھ لیتا تھا اور کبھی چھوڑ دیتا تھا کیونکہ اس وقت میں روزے کے حقیقی معنی و مفہوم سے آشنا نہیں تھا لیکن بالغ ہونے اور روزہ کے معنی ومفہوم سے آگاہ ہونے کے بعد میں نے ہر رمضان کے روزے رکھنا شروع کر دئیے تھے اور پھر کبھی ایک روزہ بھی ترک نہیں کیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر گزشتہ سالوں کے ان روزوں کی قضا واجب ہے جو میں نے نہیں رکھے تھے، یاد رہے میں نے اٹھارہ سال کی عمر میں باقاعدہ روزے رکھنے شروع کر دئیے تھے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب انسان کی عمر پندرہ سال ہو جائے تو وہ شرعی احکام کا مکلف ہو جاتا ہے کیونکہ یہ عمر بلوغت کی عمر ہے، لہذا سائل نے بالغ ہونے کے بعد جو روزے ترک کئے ہیں ان کی قضا لازم ہے۔ روزہ کی حکمت سے نا واقفیت ترک روزہ کے لیے عذر نہیں بن سکتی، لہذا اسے چاہیے کہ جو روزے اس نے رکھے نہیں یا رکھ کر پورے نہیں کئے تو ان کی قضا بھی دے اور کفارہ بھی یعنی ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور اگر ان روزوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو جو اس نے نہیں رکھے تو احتیاط کے ساتھ اتنے دن روزے رکھ لے کہ یقین ہو جائے کہ اس نے اپنے ذمہ روزوں کی قضا کو پورا کر دیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب