سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) صوم و افطار رؤیت ہلال کے مطابق ہونا

  • 8725
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1566

سوال

(186) صوم و افطار رؤیت ہلال کے مطابق ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہت سے بھائیوں نے مجھ سے یہ سوال پوچھا ہے کہ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے بارے میں ریڈیو کے اعلان کے مطابق عمل کرنے کے بارے میں کیا حکم ہےِ کیا یہ اس صحیح حدیث کے مطابق ہے کہ (صوموا لرويته وافطرو لرويته) کیا جب ایک اسلامی ملک میں عادل آدمی کی شہادت کے ساتھ رؤیت ثابت ہو جائے تو اس کے پڑوسی ملک کے لیے بھی اس کے مطابق عمل واجب ہے؟ اور اگر جواب اثبات میں ہو تو اس کی دلیل کیا ہے نیز کیا اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان تمام سوالوں کا جواب یہ ہے کہ بہت سی سندوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ثابت ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:

(صوموا لرويته وافطروا لرويته فان اغمي عليكم فاقدروا له ثلاثين) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب وجوب صوم رمضان لرويته الهلال...الخ‘ ح: 1080)

’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر چھوڑ دو اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن پورے کر لو۔‘‘

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

(فاكملوا العدة ثلاثين) (صحيح البخاري‘ الصوم‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم اذا رايتم الهلال فصوموا...الخ‘ ح: 1907)

’’پھر تین دن کی گنتی پوری کر لو۔‘‘

ایک اور حدیث میں الفاظ ہیں:

(فاكملوا عدة شعبان ثلاثين) (صحيح البخاري‘ الصوم‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم اذا رايتم الهلال فصوموا...الخ‘ ح:1909)

’’پھر شعبان کی تیس دن کی گنتی پوری کر لو۔‘‘

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:

(لا تقدموا الشهر حتي ترو الهلال او تكملوا العدة ثم صوموا حتي ترو الهلال او تكملوا العدة) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب اذا اغمي الشهر‘ ح: 2326 وسنن النسائي‘ ح: 2128)

’’مہینے سے آگے نہ بڑھو حتیٰ کہ چاند دیکھ لو یا گنتی پوری کر لو اور جب چاند دیکھ لو یا گنتی پوری کر لو تو روزے رکھو۔‘‘

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اعتبار اس بات کا ہے کہ چاند دیکھ لیا جائے یا گنتی پوری کر لی جائے۔

اس مسئلہ میں حساب کتاب پر انحصار نہیں کیا جا سکتا اور یہی حق بات ہے، قابل اعتماد اہل علم کا اسی بات پر اجماع ہے۔ لیکن یاد رہے کہ احادیث سے مراد یہ نہیں کہ ہر ہر انسان خود چاند دیکھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ عادل شہادت کے ساتھ یہ ثابت ہو جائے کہ چاند نظر آ گیا ہے۔ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بیان کی ہے:

(ترايء الناس الهلال فاخبرت رسول الله صلي الله عليه وسلم اني رايته‘ فصام وامر الناس بصيامه) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب في شهادة الواحد علي روية هلال رمضان‘ ح: 2342)

’’لوگوں نے جب (رمضان کا) چاند دیکھنے کی کوشش کی (تو مجھے نظر آ گیا) اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس (رمضان) کے روزے رکھنے کا حکم دیا۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے چاند دیکھا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اتشهد ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله قال نعم‘ قال يا بلال! اذن في الناس فليصوموا غدا) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب في شهادة الواحد علي روية هلال رمضان‘ ح: 2340 وجامع الترمذي‘ ح: 691 وسنن نسائي‘ ح: 2115 وسنن ابن ماجه‘ ح: 1652 وصحيه ابن خزيمة‘ ح: 1923‘ 1924 وصحيح ابن حبان‘ ح: 870)

’’کیا تو یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے جب اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا "بلال! لوگوں میں یہ اعلان کر دو کہ وہ کل کا روزہ رکھیں۔‘‘

عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب سے روایت ہے کہ انہوں نے شک کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے پاس بیٹھا تھا اور میں نے ان سے پوچھا اور انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:

(صوموا لرويته‘ وافطروا لرويته‘ وانسكوا لها فان غم عليكم فاتموا ثلاثين وان شهد شاهدان مسلمان فصوموا وافطروا) (مسند احمد: 4/321 وسنن النسائي‘ الصيام‘ باب قبول شهادة الرجل الواحد...الخ‘ ح: 2118)

’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اسے دیکھ کر روزہ چھوڑو اور اسی کو دیکھ کر قربانی کرو، اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (دن) پورے کر لو اور اگر دو مسلمان گواہ (چاند دیکھنے کی) گواہی دے دیں تو روزہ رکھو اور افطار کر دو۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور نسائی نے بھی مگر نسائی کی روایت میں "مسلمان" کا لفظ نہیں ہے۔ امیر مکہ حارث بن حاطب سے روایت ہے:

(عهد الينا رسول الله صلي الله عليه وسلم ان ننسك للروية‘ فان لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنا بشهادتهما) (سنن ابي داود‘ الصيام‘ باب شهادة رجلين علي رؤية هلال شوال‘ ح: 2338 وسنن الدارقطني: 2/167‘ ح: 2172)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا  کہ ہم حج اور قربانی رؤیت (ہلال) کے مطابق سر انجام دیں اور اور اگر ہم نے چاند نہ دیکھا ہو اور دو عالد گواہ (چاند دیکھنے کی) گواہی دے دیں تو ہم ان کی گواہی کے مطابق حج اور قربانی کریں۔‘‘

یہ اور اس کے ہم معنی دیگر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے ایک عادل شاہد کی گواہی کافی ہے لیکن رمضان کے اختتام اور دیگر مہینوں کے لیے دو عادل گواہوں کی شہادت ضروری ہے اور اسی طرح ہی اس مسئلہ میں وارد مختلف احادیث میں تطبیق ممکن ہو گی۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے کیونکہ دلائل سے یہی واضح ہوتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رؤیت سے مراد چاند کا شرعی طریقے سے ثبوت ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شخص خود چاند دیکھے۔ جب کوئی ایسا مسلمان ملک جس میں شریعت کے مطابق فیصلہ ہوتا ہو (مثلا سعودی عرب) یہ اعلان کرے کہ رمضان یا شوال یا ذوالحج کا چاند نظر آ گیا ہے تو تمام رعایا کے لیے یہ فرض ہو جاتا ہے کہ اس اعلان کی پابندی کرے، بلکہ اہل علم کی ایک بہت بڑی جماعت کے نزدیک دیگر تمام مسلمانوں کے لیے بھی اس کی پابندی فرض ہو جاتی ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

(الشهر تسع وعشرون ليلة فلا تصوموا حتي تروه‘ فان غم عليكم فاكملوا العدة ثلاثين) (صحيح البخاري‘ الصوم‘ باب قول النبي صلي الله عليه وسلم اذا رايتم الهلال فصوموا...الخ‘ ح: 1907)

’’مہینہ انتیس کا ہوتا ہے، لہذا اس وقت تک روزہ نہ رکھو جب تک چاند کو دیکھ نہ لو اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن کی گنتی پوری کر لو۔‘‘

اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں:

(صوموا لرويته وافطروا لرويته فان اغمي عليكم فاقدروا له ثلاثين) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب وجوب صوم رمضان لرويته الهلال...الخ‘ ح: 1080)

’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر چھوڑ دو۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن کا اندازہ پورا کر لو۔‘‘

اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے:

(فان اغمي عليكم فعدوا ثلاثين) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب وجوب صوم رمضان لرويته الهلال...الخ‘ ح: 1081)

’’اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے تمہیں مہینے (کے اختتام ) کا پتہ نہ چل سلے تو پھر (وہ مہینہ) تیس (دنوں کا) شمار کرو۔‘‘

یہ احادیث اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ساری امت کے لیے ہے۔ امام نووی نے "شرح المہذب" میں امام ابن منذر سے نقل کیا ہے کہ لیث بن سعد، امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ نیز وہ فرماتے ہیں کہ امام مدینہ وکوفہ یعنی امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔

اہل علم کی ایک اور جماعت کا یہ قول ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب مطالع ایک ہوں اور اکتلاف مطالع کی صورت میں ہر ایک مطلع کے لیے ان کی اپنی اپنی رؤیت کا اعتبار ہو گا۔ اس قول کو امام ترمذی نے اہل علم سے روایت کیا ہے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے اپنی "صحیح" میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ان کے پاس کریب، شام سے مدینہ میں، رمضان کے آخر میں آئے تو انہوں نے بتایا کہ شام میں جمعہ کی رات چاند نظر آیا ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں نے روزہ رکھا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا لیکن ہم نے تو چاند ہفتہ کی رات دیکھا ہے لہذا ہم تو روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ (شوال کا) چاند دیکھ لیں یا گنتی پوری کر لیں۔ میں نے عرض کیا، کیا آپ معاویہ کی رؤیت اور ان کے روزے رکھنے پر اعتماد نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح حکم دیا ہے۔[1] ان اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ رؤیت کو عام نہیں سمجھتے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ اہل بلد کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے جبکہ مطالع مختلف ہوں۔ ان اہل علم کا بھی کہنا ہے کہ مدینہ کا مطلع، شام کے مطلع سے مختلف ہے جب کہ بعض دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اہل شام کی رؤیت کے مطابق شاید اس لیے عمل نہ کیا ہو کہ اس کی شہادت کریب ہی نے دی تھی اور رمضان کے اختتام کے لیے ایک گواہ کی گواہی کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکتا ہاں البتہ رمضان کے آغاز کے لیے ایک گواہی کی گواہی کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے۔

یہ مسئلہ سعودی عرب کی مجلس کبار علماء کے اجلاس دوم منعقدہ شعبان 1392ھ میں بھی پیش کیا گیا تو ان علماء کی رائے یہ تھی کہ اس مسئلہ میں راجح بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے، اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق ان اقوال سے اگر کسی ایک کے مطابق عمل کر لیا جائے تو یہ جائز ہے۔ میری رائے میں یہ ایک معتدل رائے ہے اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال و دلائل میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ ہر ملک کے اہل علم پر بھی یہ واجب ہے کہ ماہ کے آغاز و اختتام کے موقع پر اس مسئلہ کی طرف خصوصی توجہ مبذول کریں اور اس ایک بات پر متفق ہو جائیں جو ان کے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو پھر اسی کے مطابق عمل کریں اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچا دیں، ان کے ملک کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلہ میں اپنے علماء کی پیروی کرین اور اس مسئلہ میں اختلاف نہ کرین کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور کثرت سے قیل و قال ہونے لگے گی۔ یہ اس صورت میں ہے جب ملک غیر اسلامی ہو اور اگر اسلامی ملک ہو تو اس کے لیے واجب یہ ہے کہ اپنے اہل علم کی بات پر اعتماد کرے اور علماء کی رائے کے مطابق رمضان کے آغاز و اختتام کی اپنے عوام سے پابندی کروائے تاکہ مذکورہ بالا احادیث پر عمل ہو سکے، فرض کو ادا کیا جا سکے اور رعایا کو ان امور سے بچایا جا سکے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام قرار دئیے ہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ سلطان سے وہ کام لے لیتے ہیں جو قرآن سے نہیں لیا جا سکتا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو توفیق بخشے کہ ہمیں دین میں فقاہت اور ثابت قدمی نصیب ہو، دین کے مطابق ہی ہم فیصلہ کریں، دین ہی کی طرف تنازعات کے حل کے لیے رجوع کریں اور دین کی مخالفت سے اجتناب کریں۔


[1] صحیح مسلم، الصیام، باب بیان ان کل بلد رؤیتھم...الخ، حدیث: 1087

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الصیام : ج 2 صفحہ 155

محدث فتویٰ

تبصرے