السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کے لیے تیار کیا تاکہ اسے ایک ایسے فقیر کو دے دوں جس کو میں جانتا تھا لیکن میں بھول گیا اور مجھے نماز میں یاد آیا اور میں نے نماز کے بعد ادا کر دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کوئی حرج نہیں! سنت یہ ہے کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے پہلے ادا کیا جائے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے[1] لیکن جو آپ نے کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس صورت میں نماز کے بعد بھی صدقہ فطر ادا ہو جائے گا اگرچہ حدیث میں آیا ہے کہ یہ ایک عام صدقہ ہو گا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ صدقہ ہو گا ہی نہیں، لہذا امید ہے یہ مقبول ہو گا کیونکہ آپ نے اسے عمدا مؤخر نہیں کیا بلکہ بھول جانے کی وجہ سے مؤخر کیا ہے اور فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا...٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا خطا ہو گئی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے جواب میں فرمایا:
(يقول الله عزوجل قد فعلت) (صحيح مسلم‘ الايمان‘ باب بيان تجاوز الله...الخ‘ ح: 126)
’’اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ میں نے تمہاری دعا کو قبول کر لیا ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی اس دعا کو قبول فرما لیا ہے کہ وہ بھول چوک کی صورت میں ان سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔
[1] صحیح بخاري، الزکاة، باب صدقة الفطر، حدیث: 1503-1504 وصحیح مسلم، الزکاة، حدیث:984
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب