سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(163) کیا قرض مانع زکوٰۃ ہے؟

  • 8702
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1130

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(الف) ایک شخص تجارت کرتا اور غیر ملکی کمپنیوں سے کچھ مدت تک کے لیے ادھار رپر معاملہ کرتا ہے۔ ایک سال گزر جاتا ہے اور اس کے ذمہ بہت زیادہ قرض ہے۔ اگر وہ سال گزرنے سے چند دن پہلے ان کمپنیوں کے قرض ادا کر دے تاکہ بطور قرض ادا کی جانے ولی رقم کی زکوٰۃ سے بچ سکے تو کیا وہ گناہ گار تو نہ ہو گا؟

(ب) اگر اس کے مال کی تفصیل درج ذیل ہو تو وہ زکوٰۃ کس طرح ادا کرے؟

سال کے اختتام پر سٹور میں موجود مال کی قیمت۔۔۔200000 ریال

اس کے ذمہ قرض۔۔۔300000 ریال

اس نے جو قرض لینا ہے۔۔۔200000 ریال

بینک میں موجود رقم۔۔۔ 100000 ریال

(ج) بعض رقوم کے ادا کرنے کا وقت تو آ گیا ہو لیکن اس نے ادا کرنے میں کچھ تاخیر کر دی ہو ہاں البتہ ان رقوم کو ادا کرنے کے لیے اس نے انہیں تجوری سے الگ کر دیا ہو اور ادا کیے جانے والے قرض سے بھی انہیں علیحدہ کر دیا ہو تو کیا ان کی زکوٰۃ اسے معاف ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی شخص سال پورا ہونے سے پہلے اپنے ذمہ قرض ادا کر دے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں، خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مقروض لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ "وہ زکوٰۃ کا وقت آنے سے پہلے پہلے قرج ادا کر دیں۔ صاحب قرض اگر اپنا کچھ قرض معاف کر دے تاکہ اسے باقی قرض وصول ہو جائے تو اس میں بھی علماء کے صحیح قول کے مطابق کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس میں مقروض کی بھی مصلحت ہے اور قرض خواہ کی بھی اور پھر اس میں سود بھی نہیں ہے۔

سٹور میں موجود سازوسامان کی قیمت پر سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی، اسی طرح بینک میں موجود رقم پر بھی سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی۔

آپ نے لوگوں سے جو قرض لینا ہے اس میں تفصیل ہے، کہ جو قرض آپ نے خوش حال لوگوں سے لینے ہیں اور جن کے ملنے کی امید ہے تو ان میں سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ہو گی، کیونکہ اس طرح کے قرض کی مثال بینک میں رکھی ہوئی رقم کی سی ہے اور جو قرض تنگ دست لوگوں سے لینا ہے تو علماء کے صحیح قول کے مطابق اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

بعض اہل علم کے بقول قرض کی وصولی کے بعد صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی، یہ بہترین قول ہے اور اس میں احتیاط بھی ہے لیکن صحیح قول کے مطابق یہ واجب نہیں ہے، کیونکہ زکوٰۃ ان اموال میں واجب نہیں ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ وصول ہوں گے یا نہیں؟؟ اس لیے کہ وہ تنگ دست یا تال مٹول سے کام لینے والوں کے ذمہ ہیں اور ان کی مثال مفقود اموال یا گم شدہ جانوروں کی طرح ہے۔

وہ قرض جو آپ کے ذمہ ہے اہل علم کے صحیح قول کے مطابق مانع زکوٰۃ نہیں ہے۔ آپ نے قرض ادا کرنے کے لیے جو مالک الگ کیا لیکن اہل قرض کو واپس لوٹانے سے پہلے اس پر ایک سال گزر گیا تو اس کی زکوٰۃ ساقط نہ ہو گی بلکہ اس کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ ہو گی، کیونکہ آپ کی ملکیت میں اس پر ایک سال گزر چکا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2 صفحہ 134

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ