سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(162) ماں کو زکوٰۃ نہ دی جائے، تارک نماز، زکوٰۃ کا مستحق نہیں

  • 8701
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1134

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ جائز ہے کہ میں اپنی والدہ کو کچھ مال دوں اور پھر زکوٰۃ میں شمار کر لوں، حالانکہ میرے والد صاحب میری والدہ صاحبہ پر خرچ کرتے اور ان کی مالی حالت بھی الحمدللہ اچھی ہے؟ اسی طرح میرا ایک بھائی بھی ہے جو کام کرتا ہے، اس نے ابھی تک شادی بھی نہیں کی لیکن (اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے) وہ نماز کی زیادہ حفاظت نہیں کرتا، کیا میں اسے کچھ زکوٰۃ دے سکتا ہوں؟ راہنمائی کیجئے اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے لیے اپنی والدہ کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں، کیونکہ والدین زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہیں اور پھر آپ کے والد صاحب کے خرچ کرنے کی وجہ سے انہیں زکوٰۃ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

باقی رہا آپ کا بھائی تو جب تک وہ تارک نماز ہے اسے بھی زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ شہادتین کے بعد نماز اسلام کا سب سے بڑا رکن ہے اور اسے جان بوجھ کر چھوڑ دینا کفر اکبر ہے اور پھر وہ صحت مند بھی ہے اور کماتا بھی ہے اور اگر اس پر خرچ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے لیے آپ کے والد صاحب زیادہ ذمہ دار ہیں، کیونکہ خرچ کرنے کے اعتبار سے یہ ان کی ذمہ داری ہے بشرطیکہ انہیں اس کی استطاعت ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے اور حق کی طرف اس کی راہنمائی فرمائے اور اسے اپنے نفس، شیطان اور برے ساتھیوں کے شر سے بچائے

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2 صفحہ 133

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ