کیا قرآن سننے کا ثواب پڑھنےسے زیادہ ہے۔ ؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔
قرآن پڑھنے کا اجروثواب قرآن سننے سے زیادہ ہے ،اگرچہ قرآن کی تلاوت کرنا اور قرآن کا سماع دونوں ہی عمل مستحب اور بہت زیادہ اجروثواب کا باعث ہیں ،لیکن قرآن کی تلاوت کرنا قرآن سننے سے افضل عمل ہے۔تلاوت قرآن کی افضلیت پر درج ذیل احادیث دال ہیں:
1-ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اس شخص کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتاہے سنگترے کی مانند ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی پیاری اورجوشخص قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے،جس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن خوشبو نہیں(صحیح بخاری :5020،صحیح مسلم:797۔)
2-ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
کیا تم میں سے کوئی پسند کرتاہے کہ جب وہ گھرواپس جائے تو اسے تین موٹی حاملہ اونٹنیاں ملیں؟ہم نے عرض کیا:جی ہاں،آپ ﷺنے فرمایا:
’’صحيح مسلم۔ تین آیات جوکوئی نماز میں تلاوت کرتاہے یہ اس کے لیے تین موٹی حاملہ اونٹنیوں سے بہتر ہے۔
3-عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اس کے لیےایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ،بلکہ الف ایک حرف ،لام الگ حرف اور میم الگ حرف ہے۔(جامع ترمذی:2910،الصحیحۃ:3327)
یہ احادیث دلیل ہیں کہ قراءت قرآن کاثواب سماعت قرآن سے زیادہ ہے،کیونکہ ان کا تعلق پڑھنے کے ساتھ ہے۔البتہ تلاوت سننا بھی مستحب فعل ہے اور اس کے استحباب پر درج ذیل روایت دال ہے۔ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا:
مجھ پر قرآن تلاوت کرو،انہوں نے عرض کیا :کیا میں آپ پر قرآن پیش کروں جب کہ آپ پر قرآن نازل ہواہے؟ آپﷺ نے فرمایا: میں اپنے غیر سے سننا پسند کرتاہوں،پھر انہوں نے سورہ نساء شروع سے تلاوت کرنا شروع کی اور جب وہ
اس آیت پر پہنچے تو آپﷺ رو دیے۔ صحیح مسلم)۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ کسی معروف قاری وحافظ سے قرآن سننا مستحب فعل ہے اور امام نووی نےاس حدیث پر یہ عنوان قائم ہے
قرآن سننے ،حافظ قرآن سے قرآن سننے کی فضیلت کابیان اور قراءت کے وقت رونے اور غوروفکر کا بیان۔
المختصر قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور سننا دونوں ہی افضل اعمال ہیں لیکن قرآن کی تلاوت کا اجروثواب زیادہ ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کے اجروثواب کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے ،وہ فضیلت سماعت قرآن کے ثابت نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب