السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی اور بری تقدیر کے ساتھ ایمان لایا جائے اور ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«اَ لْاِيْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شعبة الخ»(جامع الترمذی، الایمان، باب ماجاء فی استکمال الایمان والزیادة والنقصان، ح: ۲۶۱۴ وسنن ابن ماجه، المقدمة، باب فی ا لایمان، ح:۵۷)
’’ایمان کے ستر سے زیادہ دروازے ہیں۔‘‘ ان دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دراصل ایمان نام ہے عقیدہ کااس کے چھ اصول ہیں جو حدیث جبرئیل علیہ السلام میں مذکور ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
((اَ لْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ)) ( صحیح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰ ومسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸)
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ۔‘‘
اور وہ ایمان جو اعمال اور ان کے انواع واجناس پر مشتمل ہے، اس کی کم وبیش ستر یااس سے زیادہ شاخیں ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں نماز کو ایمان کے نام سے موسوم فرمایا ہے:
﴿وَما كانَ اللَّهُ لِيُضيعَ إيمـنَكُم إِنَّ اللَّهَ بِالنّاسِ لَرَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٤٣﴾... سورة البقرة
’’اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان (نماز) کو یوں ہی ضائع کر دے، اللہ تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے۔‘‘
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ایمان سے مراد بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی جانے والی نماز ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنےکے حکم سے قبل مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب