سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) زیورات ، الماس اور قیمتی پتھروں کی زکوٰۃ

  • 8677
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1206

سوال

(138) زیورات ، الماس اور قیمتی پتھروں کی زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ میری عمر تقریبا تیس سال ہے اور قریبا چوبیس سال سے میرے پاس سونے کے ہار ہیں جو بغرض تجارت نہیں بلکہ زیب و زینت کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ کبھی کبھی ان میں سے کچھ  فروخت کر کے اور کچھ رقم مزید خرچ کر کے میں ان سے بھی زیادہ خوبصورت ہار خرید لیتی ہوں۔ اب بھی میرے پاس زیورات ہیں اور میں نے سنا ہے کہ بطور زینت استعمال کئے جانے والے زیورات میں بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ امید ہے آپ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں گے اور اگر مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے تو اس گزشتہ مدت کے بارے میں کیا حکم ہے جس میں میں نے زکوٰۃ ادا نہیں کی اور نہ اب مجھے یہ علم ہے کہ گزشتہ سالوں میں میرے پاس کتنا سونا تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ پر زکوٰۃ اس وقت سے واجب ہو گی جب سے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے۔ وجوب زکوٰۃ کے علم سے پہلے سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ احکام شرعیہ علم کے بعد لازم ہوتے ہیں۔ شرح زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے بشرطیکہ زیورات کی مقدار نصاب کے مطابق ہو۔ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے اور یہ ساڑھے گیارہ سعودی گنی کے برابر ہے، لہذا زیورات کا وزن اگر بیس مثقال یا اس سے زیادہ ہو تو زکوٰۃ واجب ہے۔

شرح زکوٰۃ ایک ہزار میں سے پچیس ریال ہیں۔ چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے اور یہ چاندی کے چھپن ریال یا اس کی کرنسی نوٹوں میں جو قیمت ہو اس کے برابر ہیں۔ سونے کی طرح چاندی کی جو قیمت ہو اس میں شرح زکوٰۃ چالیسواں حصہ ہے۔

الماس اور دیگر قیمتی پتھر اگر پہننے کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ ہے بشرطیکہ ان کی قیمت سونے اور شاندی کے نصاب کے برابر ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الزکاۃ: ج 2  صفحہ 123

محدث فتویٰ

تبصرے