السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آج کل لوگ جائیداد کے حصص کی صورت میں کاروبار کرتے ہیں اور اس طرح بہت سا سرمایہ جامد ہو جاتا ہے، جس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن سرمایہ چار پانچ سال یا اس سے کم و بیش مدت کے لیے جامد ہو جاتا ہے اور مالک جب اپنے حصص بازار میں فروخت کرنا چاہتا ہے تو کبھی تو ان کی قیمت خرید کے مطابق ہوتی ہے اور کبھی اس سے کم اور کبھی کئی سال ایک ہی قیمت رہتی ہے۔ اسی طرح بسا اوقات اراضی کی خریداری پر سرمایہ خرچ کر دیا جاتا ہے اور بازار میں جب زمین کی قیمت بڑھ جائے تو پھر اسے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا جائیداد کے ان حصص کی ہر سال زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے جنہیں ابھی تک فروخت نہیں کیا گیا اور عرصہ دراز سے جن کی قیمت میں بھی ابھی تک کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ امکان ہے کہ بازار میں ان کی قیمت کم ہو گئی ہو؟ اسی طرح سوال یہ ہے کہ وہ اراضی جسے کمائی کرنے کے لیے خریدا گیا ہو، کیا اس پر بھی ہر سال زکوٰۃ لازم ہے جس طرح دیگر سامان تجارت پر ہر سال زکوٰۃ لازم ہوتی ہے یا مالک اس وقت زکوٰۃ ادا کرے جب اسے فروخت کرے؟ بعض علماء کا یہی قول ہے کہ بسا اوقات کئی سال گزرنے کے باوجود اس کی قیمت ایک جیسی ہی رہتی ہے اور اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور اگر اس پر زکوٰۃ ہے تو کیا ہر سال ہے یا صرف ایک بار؟ اور جب وہ اسے فروخت کرے تو کیا گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرے یا صرف ایک سال کی؟ یاد رہے بسا اوقات آدمی کا ان جائیدادوں اور حصص کی صورت میں مال تو بہت ہوتا ہے لیکن زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے وہ قرض لینے یا جائیداد کے کچھ حصے کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، کیونکہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے نقد رقم اس کے پاس نہیں ہوتی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور سامان تجارت کے حصص میں زکویۃ واجب ہے۔ ہر سال ان کی قیمت کا تعین کر کے زکوٰۃ ادا کی جائے گی یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ان کی قیمت خرید کیا تھی؟ اگر اس کے پاس مال موجود ہو تو زکوٰۃ ادا کر دے ورنہ انہیں بیچنے کے بعد جب ان کی قیمت حاصل کر لی جائے تو اس میں سے گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے اسی طرح وہ جائیدادیں جو تجارت کے لیے تو ہوں لیکن ان میں مذکورہ حصص کی صورت نہ ہو تو ان کی زکوٰۃ کا بھی یہی حکم ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب