السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے بھائی کے پاس بہت سا مال ہے جو کہ عمارتوں، تجارتی مارکیٹوں اور زمینوں پر مشتمل ہے اور ان سب چیزوں کی آمدنی بھی ہے۔ میں نے اسے نصیحت کی کہ اپنے اصل مال تجارت کی زکوٰۃ ادا کیا کرو تو اس نے مجھے بتایا کہ اصل مال تجارت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے بلکہ زکوٰۃ تو صرف اس کے وصول ہونے والے کرایہ پر ہے جب کہ اس پر ایک سال گزر جائے اور اگر وہ کرایہ وصول کرنے کے بعد عمارت ہی پر خرچ کر دے تو زکوٰۃ واجب نہ ہو گی۔ کئی اور لوگ بھی ہیں جن کا عمل میرے اس بھائی کے عمل کی طرح ہے۔ تو کیا یہ عمل اسلام کی رو سے جائز ہے؟ کیا ایسا کرنے والا گناہ گار تو نہ ہو گا؟ کون سی جائیداد ہے جس کے اصل اور نفع پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، حتیٰ کہ ایک سال گزر جائے؟ اس سلسلہ میں کوئی حد بھی مقرر ہے یا حکم ایک جیسا ہے خواہ جائیداد کم ہو یا زیادہ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان کے مال کی کئی قسمیں ہوتی ہیں مثلا نقدی تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے جب کہ نقدی نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے۔ زرعی زمین کی پیداوار مثلا دانوں اور پھلوں کی زکوٰۃ اس دن واجب ہے جس دن پھلوں کو توڑا اور کھیتی کو کاٹا جائے۔ زرعی زمین کی اصل قیمت نہیں بلکہ اس کی پیداوار پر زکوٰۃ ہے۔ جو زمین یا عمارت کرایہ پر دی گئی ہو تو سال گزرنے کے بعد اس کے کرایہ پر زکوٰۃ ہے بشرطیکہ کرایہ نصاب کے بقدر ہو، اس زمین یا عمارت کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہاں البتہ وہ زمین یا عمارت یا دیگر سازوسامان جو بغرض تجارت ہو تو اس کی قیمت پر سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ واجب ہو گی بشرطیکہ قیمت نصاب کے برابر ہو۔ اس صورت میں نفع کو بھی اصل زر کے ساتھ شامل کر لیا جائے گا۔ اسی طرح چوپائے جانوروں میں بھی زکوٰۃواجب ہے جب کہ وہ نصاب کے مطابق ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب