السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسی عبادت کے بارے میں کیا حکم ہے، جس میں ریا کی آمیزش ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبادت میں جب ریا کی آمیزش ہو تو اس کی حسب ذیل تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
۱۔ عبادت کے پیچھے کار فرما جذبہ نمود ونمائش ہو، جیسے کوئی شخص لوگوں کے دکھاوے کی خاطر اس لیے عبادت کرے کہ لوگ نماز کی پابندی کی وجہ سے اس کی تعریف کریں، تو ایسی ریا کاری سے عبادت باطل ہوجاتی ہے۔
۲۔ عبادت کے دوران ریا شروع کر دے، یعنی عبادت کو اس نے شروع تو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے طور پر کیا ہو لیکن پھر عبادت کے دوران ہی ریا کا عنصر پیداہوگیا تو ایسی عبادت کی دو حالتیں ہوں گی:
پہلی: عبادت کے پہلے حصے کو اس کے آخری حصے کے ساتھ نہ ملائے، تو اس صورت میں پہلا حصہ یقینا صحیح مگر آخری باطل ہوگا۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے ایک شخص کے پاس سو ریال ہوں، وہ انہیں صدقہ کرنا چاہے تو پچاس ریال اخلاص کے ساتھ صدقہ کر دے اور باقی پچاس جو رہ گئے ہیں ان کے بارے میں وہ ریا میں مبتلا ہو جائے، تو پہلے پچاس کا صدقہ صحیح اور مقبول ہوگا اور باقی پچاس کا صدقہ اخلاص کے ساتھ ریا مل جانے کی وجہ سے باطل ہوگا۔
دوسری: عبادت کے پہلے حصے کو آخری حصے کے ساتھ ملا دے تو اس صورت میں انسان دو باتوں سے خالی نہ ہوگا۔
ا: ریا کو دور کر دے، اس کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اسے ناپسند کرتے ہوئے اس سے اعراض کر لے تو اس کا کوئی اثر نہ ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«إِنَّ اللّٰهَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسُهَا مَا لَمْ تَعْمَلِْ أَوْ تَتَکَلَّمْ»(صحیح البخاري، الطلاق، باب الطلاق فی الاغلاق والمکرہ والسکران… ح:۵۲۶۹ وصحیح مسلم، الایمان، باب تجاوز الله عن حدیث النفس… ح:۱۲۷)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں آنے والی باتوں کو نظر انداز فرمایا ہے، جب تک اس کے مطابق عمل نہ کر لے یا اس کے مطابق بات نہ کر لے۔‘‘
ب: ریا کاری سے مطمئن ہو اور اسے دور کرنے کی کوشش نہ کرے، تو اس سے ساری عبادت باطل ہو جاتی ہے کیونکہ اس کا ابتدائی حصہ آخری حصے کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی اخلاص کے ساتھ نماز شروع کرے اور پھر دوسری رکعت میں ریا میں مبتلا ہو جائے تو ابتدائی حصے کے آخری حصے کے ساتھ ملے ہونے کی وجہ سے نماز باطل ہو جائے گی۔
۳۔ عبادت کے ختم ہونے کے بعد ریا طاری ہو تو وہ ریا عبادت پر اثر انداز نہ ہوگی اور نہ ایسے ریا سے عبادت باطل ہوگی کیونکہ یہ عبادت صحیح حالت میں مکمل ہوئی ہے، لہٰذا مکمل ہونے کے بعد ریا کے پیدا ہونے سے یہ فاسد نہ ہوگی۔
ریا یہ نہیں ہے کہ انسان اس بات سے خوش ہو کہ لوگوں کو اس کی عبادت کے بارے میں معلوم ہے کیونکہ اس صورت میں یہ بات عبادت سے فراغت کے بعد طاری ہوئی ہے اور یہ بھی ریا نہیں ہے کہ انسان اپنے فعل طاعت سے خوش ہو کیونکہ یہ تو اس کے ایمان کی دلیل ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَائَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذٰلِکُْ مُؤْمِنُ»(جامع الترمذي، الفتن، باب ماجاء فی لزوم الجماعة، ح:۲۱۶۵)
’’جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی بری معلوم ہو تو وہ مومن ہے۔‘‘
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
«تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُؤْمِنِ»(صحیح مسلم، البروالصلة، باب اذا اثنی علی الصالح، ح:۲۶۴۲)
’’یہ مومن کو جلد نصیب ہو جانے والی پیشگی بشارت ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب