السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دوسرا ملازم ہے جو ہر ماہ اپنی تنخواہ ایک بکس میں ڈال دیتا ہے اور پھر حسب ضرورت اس سے خرچ کرتا رہتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس طرح بکس میں جو رقم بچے گی اس کی زکوٰۃ وہ کس حساب سے ادا کرے گا جب کہ باقی بچ جانے والی تمام رقم پر سال نہیں گزرا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلے اور دوسرے دونوں سوالوں کی نوعیت چونکہ ایک جیسی ہے لہذا کمیٹی ان دونوں اور ان جیسے دگر سوالوں کا ایک جامع جواب دینا چاہتی ہے تاکہ سب لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور وہ یہ ہے کہ جو شخص نقدی کی صورت میں نصاب کا مالک ہو اور پھر مختلف اوقات میں اس کے پاس کچھ اور نقدی بھی آتی رہی جو پہلی نقدی کے نفع کی صورت میں نہیں ہے اور نہ ہی پہلی نقدی اس کا سبب ہے بلکہ یہ بھی مستقل ہے مثلا جیسے کہ کوئی ملازم اپنی ماہانہ تنخواہ سے جمع کرتا ہے یا اسے یہ رقم بطور رواثت یا ہبہ یا جائیداد کے کرایہ کی صورت میں ملی ہو اور وہ اس بات کا خواہش مند ہو کہ اپنا حق بھی پورا پورا محفوظ رکھے اور مستحقین زکوٰۃ کو بھی صرف ان کے حق کے مطابق ہی ادا کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی آمدنی کے حساب کا با قاعدہ ایک گوشوارہ بنا لے اور ہر مال کے ملکیت میں آنے کے بعد سے لے کر سال مکمل ہونے تک کا حساب رکھے اور جس مال پر سال پورا ہو جائے اس کی زکوٰۃ ادا کر دے اور اگر وہ راحت و سخاوت کو پیش نظر رکھے اور خوش دلی کے ساتھ فقراء اور دیگر مصارف زکوٰۃ کے پہلو کو ترجیح دے تو اس وقت اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دے، جب اس کی ملکیت میں آنے والے پہلے مال پر ایک سال مکمل ہو جائے، اس سے اسے اجروثواب بھی زیادہ ملے گا، درجات بلند ہوں گے، راحت و سکون حاصل ہو گا، فقراء و مساکین اور دیگر مصارف زکوٰۃ کے حقوق کی نگہداشت ہو گی اور اپنے فرض سے جو وہ زیادہ ادا کرے، اس کے بارے میں وہ یہ نیت کر لے کہ وہ فقراء و مساکین کے ساتھ احسان کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور مال و دولت کے عطا کرنے پر اس کا شکر ادا کر رہا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ سے یہ بھی امید رکھے کہ وہ اسے اپنے فضل و کرم سے اور بھی زیادہ مال و دولت عطا فرمائے گا کہ اس کا فرمان ہے:
﴿لَئِن شَكَرتُم لَأَزيدَنَّكُم...٧﴾... سورة ابراهيم
’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب