سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) جمع کئے ہوئے مال پر زکوٰۃ

  • 8654
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1055

سوال

(115) جمع کئے ہوئے مال پر زکوٰۃ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ماہانہ تنخواہ سے بچت کر کے جمع شدہ مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ جب کہ اس پر سال گزر چکا ہو؟ یاد رہے اس جمع شدہ مال کو کسی کاروبار میں نہیں لگایا گیا بلکہ اسے صرف گھریلو اخراجات ہی کے لیے جمع کیا گیا ہے۔ تو کیا اس صورت میں بھی اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ہاں سال گزرنے پر اس مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی، کیونکہ جس مال پر زکوٰۃ واجب ہو اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اسے تجارت میں لگایا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پھلوں اور دانوں میں بھی زکوٰۃ واجب ہے خواہ وہ تجارت کے لیے نہ ہوں بلکہ محض اپنی ضرورت ہی کے لیے ہوں اگر کسی انسان کے گھر میں کھجوروں کے چند درخت ہوں، ان کا پھل نصاب کے مطابق ہو اور ان درختوں کے پھل کو اس نے صرف اپنے ہی خرچ کے لیے رکھا ہو تو اس میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی۔ کھیتوں کی اس پیداوار کے سلسلہ میں بھی یہی حکم ہے جس میں زکوٰۃ واجب ہو، جنگل میں چرنے والے ان جانوروں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے جن میں زکوٰۃ واجب ہو خواہ انہیں انسان نے تجارت کے لیے نہ بھی رکھا ہو۔ اسی طرح ان درہموں کا بھی یہی حکم ہے جن میں زکوٰۃ واجب ہو، خواہ انسان نے انہیں تجارت کے لیے نہ بھی جمع کیا ہو۔ پس تنخواہ سے پس انداز کئے ہوئے سرمایہ پر بھی زکوٰۃ واجب ہے بشرطیکہ نصاب کے مطابق ہو اور اس پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ قابل غور ہے جس میں لوگوں کو بہت مشکل پیش آتی ہے اور وہ یہ کہ ہر ماہ تنخواہ یا گھر کے کرایہ یا دکان کے کرایہ سے یا اس طرح کی دیگر صورتوں میں آدمی اپنے اکاؤنٹ میں یس کسی دوسری جگہ جمع کرتا ہے اور پھر اس سے حسب ضرورت خرچ بھی کرتا ہے اور پھر اس میں جمع بھی کرتا ہے تو اب یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کتنی رقم پر سال گزرا ہے اور کتنی رقم ہے جس پر ابھی سال نہیں گزرا تو اس سلسلہ میں سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ جب اس کے پاس پہلی مرتبہ بقدر نصاب رقم جمع ہو جائے تو اس وقت سے وہ سال کا حساب لگائے اور سال پورا ہونے پر تمام جمع شدہ رقم کی زکوٰۃ ادا کر دے تو جس رقم پر سال مکمل ہو گیا ہے اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی اور جس رقم پر ابھی سال پورا نہیں ہوا اس کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی، کیونکہ سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنا بھی جائز ہے۔ ہر مال کی نسبت سے الگ الگ سال کا حساب لگانے کی بجائے یہ صورت آسان ہے جب کہ ہر ماہ کے حساب سے سال کا حساب لگانے میں دشواری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الزکاۃ: ج 2  صفحہ 113

محدث فتویٰ

تبصرے