سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(98) بغیر ضرورت کچھ دنوں کے لیے میت کے منہ کو ننگا رکھنا

  • 8637
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1254

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بغیر ضرورت کے ایک یا دو یا تین یا اس سے بھی زیادہ دنوں تک میت کے منہ کو ننگا رکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے تاکہ دور و نزدیک کے سب لوگ اس کا دیدار کر سکیں؟ فوت شدہ، مرد ہو یا عورت، کے چہرہ کو روزانہ دیکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا منہ کو ننگا رکھنا اسلامی تعلیمات کے منافی تو نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولا: سنت یہ ہے کہ انسان جب فوت ہو جائے تو چہرے سمیت اس کے سارے جسم کو ڈھانپ دیا جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

(ان رسول الله صلي الله عليه وسلم حين توفي سجي ببرد حبرة) (صحيح البخاري‘ اللباس‘ باب البرود والحبر والشملة‘ ح: 5814 وصحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب تسبيحية الميت‘ ح: 942 ومسند احمد: 89/6‘ 153)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات فرما گئے تو آپ کے جسد اطہر کو ایک (یمنی) چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔‘‘

صحابہ کرام میں بھی یہی امر معروف تھا اور یہ عہد نبوی کے عمل ہی کا تسلسل تھا، امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ’’اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ میت ک ڈھانپ دیا جائے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کی حفاظت کی جائے اور اس کی صورت میں اگر کوئی تبدیلی رونما ہو تو اسے آنکھوں سے اوجھل رکھا جائے اور میت کا جن کپڑوں میں انتقال ہوا ہو انہیں اتارنے کے بعد اسے ڈھانپا جائے تاکہ اس کپڑوں کی وجہ سے اس کے جسم میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ سوال میں ایک یا ایک سے زیادہ ایام تک میت کا چہرہ کھلا رکھنے کے بارے میں جو پوچھا گیا ہے تاکہ لوگ اس کا دیدار کر سکیں، تو یہ اسلامی طریقے اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔اگر میت کے گھر والے تجہیز و تدفین میں تاخیر کئے بغیر اس کا چہرہ کھلا رکھ کر دیکھنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(لما قتل ابي جعلت اكشف الثوب عن اجهه ابكي وينهوني عنه والنبي صلي الله عليه وسلم لا ينهاني) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الدخول علي اميت بعد الموت...الخ‘ ح: 1244 وصحيح مسلم‘ فضائل الصحابة‘ باب من فضائل عبدالله بن عمرو بن حرام...الخ‘ ح: 2471)

’’جب میرے والد شہید ہوگئے تو میں ان کے چہرے سے کپڑے کو ہٹاتا اور روتا تھا، لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

(رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقبل عثمان بن مظعون وهو ميت حتي رايت الدموع تسيل) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب في تقبيل الميت‘ ح: 3163)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حضرت عثمان بن معظون کو بوسہ دے رہے تھے جب کہ وہ فوت ہو چکے تھے اور میں نے آپ کے آنسو بہتے ہوئے بھی دیکھے۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ سیدھے وہاں تشریف لے آئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میت پاک دھاری دار (یمنی) چادر سے ڈھانپ کر رکھی ہوئی تھی، انہوں نے چہرہ اقدس سے کپڑا ہٹایا اور جھک کر بوسہ دیا اور پھر رونے لگے اور فرمایا:

(بابي انت وامي يا نبي الله‘ لا يجمع الله عليك موتتين) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الدخؤل علي الميت بعد الموت اذا ادرج في اكفاته‘ ح: 1241‘1242)

’’اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں فرمائے گا۔‘‘

ثانیا: جب یقین ہو جائے کہ موت واقع ہو چکی ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ تجہیز میں جلدی کی جائے، کیونکہ اس طرح میت میں کوئی تبدیلی بھی رونما ہو گی کہ لوگ اس سے نفرت کریں۔ سنن ابی داود میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اني لا اري طلحة الا قد حدث فيه الموت‘ فاذنوني به وعجلوا‘ فانه لا ينبغي لجيفة مسلم ان تجسس بين ظهراني اهله ) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب تعجيل الجنازة...الخ‘ ح: 3159)

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ پر موت طاری ہو چکی ہے، لہذا جب وہ وفات پا جائیں تو مجھے اس کی اطلاع کر دینا اور ان کی تیاری میں جلدی کرنا، کیونکہ مسلمان کی میت کو اس کے گھر والوں کے پاس زیادہ دیر تک نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اذا مات احدكم فلا تحبسوه واسرعوا به الي قبره) (المعجم الكبير للطبراني: 444/12‘ ح: 13613)

’’جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو پھر اسے زیادہ دیر تک نہ روکو بلکہ اسے جلد اس کی قبر میں پہنچا دو۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اسرعوا بالجنازة‘ فان تك صالحه‘ فخير تقدمونها اليه‘ وان تك سوي ذلك‘ فشر تضعونه عن رقابكم) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب السرعة بالجنازة‘ ح: 1315 وصحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب الاسراع بالجنازة‘ ح: 944)

’’جنازے میں جلدی کرو! اس لیے کہ اگر میت نیک ہے تو تم اسے خیروبھلائی کی طرف لے جاتے ہو اور اگر وہ نیک نہیں ہے تو برائی کو جلد اپنے کندھوں سے اتار پھینکتے ہو۔‘‘

اس حدیث میں یہ بھی تلقین کی گئی ہے کہ تجہیز و تدفین میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تاکہ میت کو جلد خیر و بھلائی کی طرف لے جایا جائے یا جلد اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے، وہاں اس قدر انتظار جائز ہے کہ وہ لوگ جمع ہو جائیں جو جنازہ پڑھیں، اسے الوداع کریں اور اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کریں، نشرطیکہ انتظار کی وجہ سے تاخیر نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت ایک یا ایک سے زیادہ دنوں تک میت کے دفن میں تاخیر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے لہذا ان لوگوں کو نصیحت کرنی چاہیے جو تجہیز و تدفین میں تاخیر کرتے اور لوگوں کے دیدار کے لیے میت کے منہ کو کھلا رکھتے ہیں اور انہیں بتانا چاہیے کہ ان مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا طریقہ کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس طرح سمجھانے سے اللہ تعالیٰ انہیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمادے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 94

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ