السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ جائز ہے کہ وفات کے چالیس دن بعد میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی طرف سے صدقہ کرنا صحیح ہے لیکن کسی دن کی تحدید اور تعیین کرنا بدعت ہے۔ مستقل فتویٰ کمیٹی برائے بحوث علمیہ و افتاء کے پاس میت کی طرف سے چالیسوین دن محفل منعقد کرنے کے سلسلےمیں ایک سوال آیا تھا جس کا کمیٹی نے حسب ذیل جواب دیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور سلف صالح سے میت کے لیے کسی قسم کی محفل منعقد کرنا ہرگز ثابت نہیں ہے، وفات کے وقت، نہ وفات کے بعد ساتویں یا چالیسویں دن اور نہ ایک سال بعد بلکہ یہ بدعت اور ایک بری عادت ہے۔ یہ قدیم مصریوں اور دیگر کافروں کی رسم ہے لہذا جو مسلمان اس قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں انہیں سمجھانا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کر کے ان بدعات اور کفار کی مشابہت سے اجتناب کر لیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بعثت بين يدي الساعة بالسيف حتي يعبدالله وحده لا شريك له‘ و جعل رزقي تحت ظل رمحي‘ وجعل الذلة والصغار علي من خالف امري‘ ومن تشبه بقوم فهو منهم) (مسند احمد: 2/50)
’’مجھے قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے حتیٰ کہ اللہ وحدہ لا شریک له کی عبادت کی جائے اور میرا رزق میرے نیزے کے سایہ تلے رکھا گیا ہے اور ذلت و رسوائی اس کے لیے ہے جو میرے حکم کی مخالفت کرے اور جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی میں سے ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لتركبن سنن من كان قبلكم سبرا بشبر وذراعا بذرع حتي لو ان احدهم دخل جحر ضب لدخلتم وحتي لو ان احدهم جامع امراته بالطريق لفعلتموه) (صحيح البخاري‘ احاديث الانبياء‘ باب ما ذكر عن بني اسرائيل‘ ح: 3456 والمستدرك للحاكم: 4/ 455 واللفظ له)
’’تم پہلے لوگوں کے طریقوں کو بالکل اسی طرح مکمل طور پر اختیار کر لو گے جس طرح بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی شخص سانڈے کی بل میں داخل ہوا تو تم بھی داخل ہو گے اور اگر ان میں سے کسی نے راہ چلتے اپنی بیوی سے جماع کیا تو تم بھی ایسا کرو گے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب