سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(89) میت کا ساتواں یا چالیسواں

  • 8628
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1372

سوال

(89) میت کا ساتواں یا چالیسواں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسلمان فوت ہوا جس کے بہت سے بچے ہیں اور اس نے ان کے لیے مال بھی بہت چھوڑا ہے تو کیا وہ اس کی طرف سے ساتوین یا چالیسویں دن روٹی اور گوشت وغیرہ کی دعوت کر سکتے ہیں تاکہ اس کے ایصال ثواب کے لیے مسلمانوں کو جمع کر کے کھانا کھلا دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کی طرف سے صدقہ کرنا درست ہے۔ فقرا و مساکین کو کھانا کھلانا، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور مسلمانون کی عزت افزائی کرنا بلا شبہ نیکی کے وہ کام ہیں جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے لیکن میت کے لیے اس کی وفات کے دن یا کسی معین مثلا ساتوین یا چالیسوین دن بکری یا گائے یا اونٹ یا پرندوں وغیرہ کو ذبح کر کے دعوت کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔ اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے لیے بھی کسی دن یا رات کو معین کرنا مثلا جمعرات کا دن، جمعہ کا دن یا جمعی کی رات وغیرہ تو یہ بدعت ہے۔ سلف صالح میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا، لہذا اس قسم کی بدعتوں کو ترک کر دینا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:

(اياكم و محدثات المور‘ فان كل محدثه بدعة‘ وكل بدعة ضلالة) (سنن ابي داود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ه: 4607‘ واصله في صحيح مسلم)

’’اپنے آپ کو (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچاؤ، کیونکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 88

محدث فتویٰ

تبصرے