سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) قبر کے پاس سورت فاتحہ یا کوئی اور سورت پڑھنا

  • 8624
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1215

سوال

(85) قبر کے پاس سورت فاتحہ یا کوئی اور سورت پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا زیارت قبر کے وقت میت کے لیے سورت فاتحہ یا کوئی اور سورت پڑھنا جائز ہے؟ اور کیا میت کو اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ قبروں کی زیارت فرمایا کرتے تھے اور مُردوں کے لیے وہ دعائیں مانگتے جو آپ نے صحابہ کرام کو بھی سکھائیں اور صحابہ کرام نے آپ سے سیکھیں مثلا انہیں میں سے ایک یہ دعا بھی ہے:

(السلام عليكم اهل الديار من المومنين والمسلمين‘ وانا‘ ان شاءالله‘ للاحقون‘ اسال الله لنا ولكم العافية) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب ما يقال عند دخول القبور...الخ‘ ح: 975)

’’اے بستی کے رہنے والے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلام ہو بے شک ہم بھی ان شاءاللہ (تم سے) عنقریب ملنے والے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘

قبروں کی بکثرت زیارت کے باوجود یہ بات ثابت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مُردوں کے لیے کبھی سورت فاتحہ یا قرآن مجید کی کچھ آیات پڑھی ہوں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو آپ خود یقینا ایسا کرتے اور صحابہ کرام کے سامنے بھی اس بات کو واضح فرما دیتے تاکہ اس طرح آپ حصول ثواب کی ترغیب دیتے، امت پر رحمت فرماتے اور فریضہ تبلیغ کو بھی ادا فرماتے۔ آپ کی شان تو یہ ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿لَقَد جاءَكُم رَ‌سولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَر‌يصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ﴿١٢٨﴾... سورة التوبة

’’(لوگو!) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں، تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں پر نہایت شفقت کرنے والے (اور) مہربان ہیں۔‘‘

اسباب میسر ہونے کے باوجود جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک غیر شرعی عمل ہے۔ حضرات صحابہ کرام کو بھی اس کا علم تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محض آپ کے نقش قدم پر چلنے پر اکتفا کیا کہ صرف عبرت اور مُردوں کے حق میں دعا کے لیے قبروں کی زیارت اور کبھی بھی زیارت قبور کے موقع پر قرآن مجید نہیں پڑھا، گویا اس موقع پر قرآن مجید کو پڑھنا بدعت ہے اور بدعت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)

’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو دین میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 85

محدث فتویٰ

تبصرے