السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے تو اس گھر میں لاؤڈ سپیکر پر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی جاتی ہے، حتیٰ کہ جب گاڑی پر میت کو قبرستان میں لے جایا جاتا ہے تو اس وقت بھی گاڑی کے ساتھ سپکیر نصب ہوتا ہے، حتیٰ کہ اس طرح تلاوت سنتے ہی لوگ یہ بد شگونی لیتے ہیں کہ کوئی فوت ہو گیا ہے، اور اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ کسی انسان کی موت پر ہی تلاوت قرآن کی جاتی ہے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ اور اس طرح کرنے والوں کے لیے آپ کے کیا پندونصائح ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلاشک و شبہ یہ عمل بدعت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عہد میں اس طرح کا کوئی رواج نہ تھا۔ تلاوت قرآن سے بلا شبہ غم و فکر ہلکا ہو جاتا ہے بشرطیکہ آدمی اسے خود خشوع و خضوع سے پڑھے، نہ کہ سپیکروں پر اس طرح پڑھا جائے، اسی طرح اہل میت کا تعزیت کے لیے آنے والوں کے استقبال کے لیے جمع ہونا بھی ان امور میں سے ہے جو عہد نبوی اور عہد صحابہ میں معروف نہ تھے، حتیٰ کہ بعض علماء نے اسے بھی بدعت قرار دیا ہے، لہذا ہماری رائے میں اہل میت کو لوگوں کی طرف سے تعزیتیں وصول کرنے کے لیے جمع نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں اپنے دروازے بند کر لینے چاہئیں، اگر بازار میں انہیں کوئی ملے یا جاننے والوں میں سے کوئی آئے کہ تعزیت وصول کرنے کا انہوں نے باقاعدہ کوئی اہتمام نہ کیا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
تعزیت وصول کرنے کے لیے لوگوں کے باقاعدہ استقبال کا عہد نبوی اور عہد صحابہ میں کوئی رواج نہیں تھا، حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو اہل میت کے جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو بھی نوحہ شمار کرتے تھے۔ نوحہ کبیرہ گناہ ہے جیسا کہ معروف ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ اور فرمایا ہے:
(النائحة اذا لم تتب موتها‘ تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران‘ ودرع من جرب ) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب التشديد في النياحة‘ ح: 934)
’’نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے روز قیامت اس طرح کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول کا کرتہ اور خارشی زرہ ہو گی۔‘‘ (اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔)
میری اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت ہے کہ ان بدعت والے کاموں کو ترک کر دیں، کیونکہ ان کا ترک کر دینا، ان کے لیے بھی اور میت کے لیے بھی اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’میت کو اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘[1]
یعنی اسے اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ اگرچہ اسے اس کی اتنی سزا نہیں ملے گی جتنا کہ نوحہ کرنے والے کو کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرى...١٦٤﴾... سورة الانعام
’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘
اس حدیث میں عذاب کا لفظ سزا کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ اسی طرح ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(السفر قطعة من العذاب ) (صحيح البخاري‘ العمرة‘ باب السفر قطعة من العذاب‘ ح: 1804)
’’سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘
یعنی دکھ درد اور غم و فکر کو بھی عذاب کہا جاتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’عذبنی ضمیری‘‘ ’’میرے ضمیر نے مجھے عذاب دیا۔‘‘
حاصل کلام یہ ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان باتوں سے دور رہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے دور کرنے والی اور ان کے مردوں کو عذاب سے قریب کر دینے والی ہیں۔
[1] صحیح بخاري، الجنائز، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعذب المیت...الخ، حدیث: 1286،1287 وصحیح مسلم، الجنائز، باب المیت یعذب ببکاء اھله علیه، حدیث:927
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب