السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے شہر میں یہ رواج ہے کہ جب کسی مردے کو دفن کر دیا جاتا ہے تو پھر چالیس دن تک اس کے اہل خانہ اس کی قبر کی زیارت کے لیے نہیں چاتے اور پھر اس کے بعد جاتے ہیں اور ان کے نزدیک چالیس دن سے پہلے زیارت جائز نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات کس حد تک صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کے جواب سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو قبروں کی زیارت سے منع فرما دیا تھا اور پھر بعد میں مردوں کو اس کی اجازت عطا فرما دی اور اب صرف مردوں کے لیے زیارت قبور سنت ہے، لہذا جو شخص زیارت قبور کے لیے جائے، وہ اس لیے جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے تاکہ وہ ان مردوں کی حالت کو دیکھ کر عبرت حاصل کر سکے کہ کل تک تو یہ زمین پر چلتے پھرتے تھے اور اب اپنی قبروں میں اپنے اعمال کے رہین منت ہیں، اپنے اعمال کے سوا وہاں ان کا اور کوئی دوست اور ساتھی نہیں ہے۔
قبر انسان کا آخری ٹھکانہ ہے بلکہ اس کے بعد وہ یوم آخر آنے والا ہے کہ جس کے بعد اور کوئی دن نہیں ہو گا،قبروں میں باقی رہنا ہی زیارت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿أَلهىكُمُ التَّكاثُرُ ﴿١﴾ حَتّى زُرتُمُ المَقابِرَ ﴿٢﴾... سورة التكاثر
’’(لوگو!) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘
بیان کیا گیا کہ ایک اعرابی نے کسی کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کہ (حَتَّىٰ زُرْتُمُ ٱلْمَقَابِرَ) تو وہ بے ساختہ پکار اٹھا کہ ’’زائر مقیم نہیں ہوتا‘‘
اس مناسبت سے میں اس طرف توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ سوچے سمجھے بغیر جو اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ’’وہ فلاں شخص کو اس کے آخری ٹھکانے پر پہنچا آئے ہیں۔‘‘ ان الفاظ پر ہم اگر غورکریں تو ان میں ایک طرح سے بعثت کا انکار ہے، کیونکہ اگر قبر پہ میں آخری ٹھکانہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد بعث و نشر نہ ہو گا اور یہ ایک بہت خطرناک بات ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانا تو ایمان و اسلام کی شرط ہے۔ لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ عامۃ الناس اس قسم کے کلمات کو سوچے سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں لیکن اس طرف توجہ دلانا ضروری تھی، کیونکہ اس طرح کے جملوں کو مطلقا استعمال کرنا حرام ہے اور اگر کسی شخص کا اعتقاد ہی یہی ہے کہ قبر آخری ٹھکانہ یا آخری آرام گاہ ہے تو پھر یہ کفر ہے، کیونکہ اس میں یوم آخرت کا انکار ہے۔
باقری رہا چالیس دن کے بعد زیارت قبور کا مسئلہ تو اس کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ انسان اپنے کسی عزیزکی تدفین کے دوسرے دن بعد بھی اس کی قبر کی زیارت کر سکتا ہے، لیکن جب کسی انسان کا کوئی قریبی عزیز وفات پائے گا تو پھر اسے دل کا روگ نہیں بنا لینا چاہیے اور اس کی قبر پر کثرت سے نہیں جانا چاہیے، کیونکہ اس سے غم تازہ رہے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو جائے گا اور زیادہ اہمیت اس بات کو دے گا کہ اپنا زیادہ وقت اپنے اس عزیز کی قبر کے پاس ہی گزارے، اس سے انسان کو وسوسوں ، برے افکار و خیالات اور خرافات میں مبتلا ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب