السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میں اپنے فوت شدہ بیٹے کی قبر کو دیکھنے کے لیے جا سکتی ہوں؟ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر والدہ طلوع آفتاب سے پہلے قبرستان جائے، سورۃ فاتحہ پڑھے لیکن روئے نہ تو اس کے لیے اپنے بیٹھے کو دیکھنا ممکن ہے، دونوں کے درمیان چھلنی کے سوراخوں کی طرح مسافت ہو گی اور اگر وہ روئے تو پھر دونوں کے درمیان پردہ حائل ہو گا اور وہ دیکھ نہ سکے گی، کیا یہ بات صحیح ہے؟ نیز عورتوں کے لیے قبرستان میں جانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے جو یہ بات ذکر کی ہے کہ عورت اگر جمعہ کے دن طلوع آفتاب سے پہلے اپنے بیٹے کی قبر کو دیکھنے جائے اور نہ روئے اور سورت فاتحہ پڑھے تو اس کے لیے کشف ہو جاتا ہے اور وہ اپنے بیٹے کو اس طرح دیکھ سکتی ہے گویا چھلنی کے سوراخوں میں سے دیکھ رہی ہو تو یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ایک باطل اور نا قابل اعتماد قول ہے۔
باقی رہا عورتوں کے لیے زیارت قبور کا مسئلہ، تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے اسے مکروہ اور بعض نے اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ وہ کسی ممنوع کام کا ارتکاب نہ کرے اور بعض اہل علم نے اسے حرام قرار دیا ہے اور میرے نزدیک بھی اس مسئلہ میں اہل علم کا یہی قول راجح ہے کہ عورتوں کے لیے زیارت قبور حرام ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں، ان پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [1]ظاہر ہے کہ جو فعل مباح یا مکروہ ہو اس پر لعنت نہیں کیا جا سکتی کیونکہ لعنت تو اسی کام پر ہوتی ہے جو حرام ہو۔ اہل علم کے ہاں معروف قاعدے کا تقاضا بھی یہ ہے کہ عورتوں کے لیے زیارت قبور کو کبیرہ گناہ قرار دیا جائے، کیونکہ یہ مستحق لعنت ہے اور جو گناہ موجب لعنت ہو وہ کبیرہ ہوتا ہے جیسا کہ اکثر اہل علم کے ہاں یہ ایک مسلم قاعدہ ہے، لہذا اس عورت کے لیے جس کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، میری نصیحت یہ ہے کہ یہ اپنے گھر میں اپنے بیٹے کے لیے کثرت سے استغفار اور دعا کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا اور استغفار کو قبول فرما لیا تو یہ اس کے بیٹے کے لیے نفع بخش ہو گا، خواہ یہ اس کی قبر کے پاس نہ بھی ہو۔ عورتوں کا زیارت کے نقطہ نظر سے قبرستان جانے کو علمائے محققین نے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ مردوں کے ساتھ اختلاط اور بے پردگی نہ ہو۔ دوسرے، وہ وہاں جا کر جزع فزع اور اس کی قسم کی غیر شرعی حرکات کا ارتکاب نہ کریں۔ اس لیے ممانعت کی احادیث یا تو ضعیف ہیں، جیسے مذکورہ بالا فتویٰ میں جو تین حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔ یہ تینوں سندا ضعیف ہیں۔
[1] سنن ابي داود، الجنائز، باب فی زیارة النساء القبور، حدیث:3236
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب