السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے شہر کے لوگوں کی یہ عادت ہے کہ کسی شخص کی وفات کے وقت تعزیت کے لیے ایک ہفتہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ بیٹھتے ہیں اور دعوتوں کے لیے جانور ذبھ کرنے اور دیگر لوازمات پر بہت مال خرچ کرتے ہیں۔ تعزیت کرنے والے بھی وفدوں کی صورت میں، دور دراز کے سفر طے کر کے آتے ہیں اور جو نہ آ سکے اس کے متعلق (بیہودہ) باتیں کرتے اور اسے بخیل اور تارک واجب قرار دیتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعزیت کرنا تو جائز ہے، کیونکہ اس میں مصیبت پر صبر کے بارے میں تعاون ہے لیکن تعزیت کے لیے مذکورہ طریقے سے بیٹھنا اور اسے ایک عادت کا روپ دے دینا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے طرز عمل سے ثابت نہیں ہے لوگوں نے تعزیت کو جو یہ شکل و صورت دے دی ہے اور اس کے لیے بے پناہ مال و دولت کو خرچ کرنا شروع کر دیا ہے حالانکہ ترکہ تو یتیموں کا مال ہے اور اسے خرچ کرنا ان کی مصلحتوں کے خلاف ہے اور پھر تعجب یہ ہے کہ جو لوگ ان محفلوں میں شریک نہ ہوں انہیں یہ اس طرح ملامت کرتے ہیں گویا انہوں نے کوئی شرعی فریضہ ترک کر دیا ہو۔
بلا شک و شبہ تعزیت کی یہ صورت ان بدعات میں سے ہے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت فرمائی ہے۔ یہ بدعت آپ کے اس ارشاد کے عموم میں داخل ہے:
(من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697)
’’جو شخص ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
(عليكم بسنتي وسنه الخلفاء الراشدين المهديين وياكم ومحدثات المور...) (سنن ابي دود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ح: 4607)
’’میری اور میرے بعد کے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور مضبوطی سے تھام لو اور نئی نئی باتوں کے پیدا کرنے سے اجتناب کرو کیونکہ (دین میں) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اس حدیث میں آپ نے اپنی اور اپنے بعد کے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کی سنت سے تو یہ ثابت ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح پھر یہ عمل بدعت قرار پاتا ہے اور بدعت سے آپ نے منع کیا اور فرمایا کہ یہ ضلالت ہے لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان بری عادتوں کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں تاکہ ان بدعات کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا جائے، سنت کا اتباع کیا جائے، مال اور وقت کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، زیادہ جانور ذبح کرنے، تعزیت کے لیے آنے والوں کی کثرت اور ایسی محفلوں کی طوالت پر فخر سے بچا جا سکے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ بس اسی پر اکتفاء کریں جس پر حضرات صحابہ کرام اور سلف صالح رحمۃ اللہ علیھم اکتفاء فرمایا کرتے تھے اور وہ یہ کہ میت کے گھر والوں سے تعزیت کی جائے، انہیں تسلی دی جائے، میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے اور اس کی مغفرت و رحمت کے لیے دعا کی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب