السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں کے پاس سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی ایسے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا کہ (دنیا میں) اس سے بچنا ان کے لیے مشکل اور دشوار تھا، ان میں سے ایک پیشاب سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور دوسرا غیبت کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ترو تازہ ٹہنی لی اور اسے دو حصوں میں کاٹ کر ہر قبر پر ایک ایک حصہ گاڑ دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
(لعله ان يخفف عنهما ما لم ييبسا) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الجريدة علي القبر‘ ح: 1361)
’’ہو سکتا ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان سے عذاب میں تخفیف کر دے۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے کیا ہمارے لیے بھی ایسا کرنا صحیح ہے؟ کیا کھجور کی ٹہنی (چھڑی) پر قیاس کرتے ہوئے دیگر ترو تازہ اور سر سبز و شاداب چیزوں کو بھی قبر پر رکھنا جائز ہے؟ کیا یہ جائز ہے کہ قبر پر کوئی درخت لگایا دیا جائے تاکہ وہ ہمیشہ ہی سر سبز رہے اور اس سے یہ مقصد حاصل ہوتا رہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دو قبروں پر تخفیف عذاب کی امید سے کھجور کی ٹہنی رکھنا ایک خاص واقعہ ہے جو کہ عموم کا حامل نہیں، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے اور پھر یہ آپ کا معمول بھی نہیں تھا، اگر مختلف واقعات میں بھی ایسا ہوا ہو تو بھی دو تین بار سے زیادہ نہیں ہوا، حضرات صحابہ کرام میں سے بھی کسی نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو نفع پہنچانے کے بے حد خواہش مند تھے ہاں البتہ اس سلسلہ میں صرف بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے یہ ضرور روایت ہے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخوں کو گاڑ دیا جائے[1] لیکن ہمارے علم کی حد تک حضرات صحابہ کرام میں سے کسی اور نے حضرت بریدہ کی اس مسئلہ میں موافقت نہیں کی۔
[1] امام بخاری نے اسے کتاب الجنائز باب الجریدۃ علی القبر کے تحت معلقا روایت کیا ہے اور ابن سعد نے الطبقات الکبری (8/7) میں موصولا بیان کیا ہے، دیکھئے: (تغلیق التعلیق 492/2)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب