السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک مسجد میں امام ہوں اور جمعہ کے خطبہ کے لیے شیخ محمد بن صالح بن عثیمین کی کتاب "الضیاء اللامع من الخطب الجوامع" سے استفادہ کرتا ہوں۔ اس کتاب میں حض کی ترغیب کے سلسلہ میں ایک خطبہ میں یہ عبارت بھی ہے کہ ’’عورت کے لیے سفر حج میں جو محرم کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے تو یہ اس کی حفاظت و ضمانت کے لیے ہے۔ اس سلسلہ میں عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر وہ سفر حج میں فوت ہو جائے تو محرم اس کے تنگ کو کھول سکے تو یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ عورت جب فوت ہو جائے تو اس کے کفن کے تنگ کو ہر شخص کھول سکتا ہے خواہ وہ محرم ہو یا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاجزادی کو جب دفن کیا جا رہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس تشریف فرما تھے، آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں تو آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو قبر میں اترنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ خود بھی تشریف فرما تھے اور ان کے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔‘‘ میں نے جب اسے خطبہ میں بیان کیا تو اس پر ایک طالب علم نے اعتراض کیا کہ یہ صحیح نہیں تو اس سلسلہ میں آپ سے فتویٰ مطلوب ہے کیا یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں شیخ محمد بن صالح العثیمین نے اپنی کتاب "الضیاء اللامع" میں جو یہ لکھا ہے کہ ’’سفر حج اور دیگر سفروں میں عورت کے ساتھ محرم کا ہونا جو ضروری ہے تو یہ اس لیے نہیں کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو وہ اس کے کفن کے تنگ کو کھول سکے‘‘ یہ بالکل صحیح ہے اسی طرح انہوں نے جو یہ استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاجزادی۔۔۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ۔۔۔ کی قبر کے پاس تشریف فرما تھے اور آپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قبر میں اتریں اور دفن کریں[1] جب کہ حضرت ام کلثوم کے والد گرامی اور شوہر نامدار موجود تھے، تو یہ استدلال بھی بالکل صحیح ہے اور یہ بات بھی درست نہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاجزادی کا خاصہ تھا، کیونکہ اصول عدم خصوص ہی ہے الا یہ کہ خصوصیت کی کوئی دلیل ہو اور یہاں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے۔
[1] صحيح بخاري‘ الجنائز‘ باب من يدخل قبر المراة‘ حديث: 1342
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب