سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) بوقت ضرورت ایک قبر میں دو میتوں کو دفن کرنا

  • 8589
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2037

سوال

(50) بوقت ضرورت ایک قبر میں دو میتوں کو دفن کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چھ ماہ کی بچی فوت ہوئی تو اسے ایک ایسے بچے کی قبر میں دفن کر دیا گیا تھا کہ جو اپنی ماں کے پیٹ میں ہی چھٹے مہینے اسقاط ہو گیا تھا۔کیا اس طرح (دونوں کو ایک قبر میں دفن) کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جن لوگوں نے ان دونوں کو ایک قبر میں دفن کر دیا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حکم شریعت یہ ہے کہ ہر میت کو الگ الگ قبر میں دفن کیا جائے، اسی سنت پر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک عمل کرتے چلے آئے ہیں۔ ہاں اگر دو یا دو سے زیادہ میتوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کی کوئی ضرورت و حاجت ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں جیسا کہ ’’صحیحین‘‘ اور دیگر کتب حدیث میں ہےکہ ضرورت و ھاجت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ شہداء احد میں سے دو دو یا تین تین آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کیا جائے۔[1] اب اس دفن شدہ بچی اور ساقط شدہ جنین کی قبر کھودنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب وقت ختم ہو گیا اور جس نے ازراہ جہالت ایسا کیا اسے کوئی گناہ بھی نہ ہو گا، البتہ ہر اس شخص کے لیے یہ ضرری ہے جو کسی بھی عبادت یا کسی اور کام کو کرنے لگے تو یہ معلوم کرے کہ اس کے لیے احکام الہی کیا ہیں تاکہ وہ کسی ایسے امر کا ارتکاب نہ کر بیٹھے جو شرعا ممنوع ہو۔

 


[1] صحيح بخاري‘ الجنائز‘ باب دفن الرجلين والثلاثة في قبر‘ حديث: 1345

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 59

محدث فتویٰ

تبصرے