السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک باپ نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کی میت کو مدینہ منورل لے جا کر بقیع الغرقد میں دفن کر دیا جائے، تو سوال یہ ہے کہ ایک شہر سے لے جا کر دوسرے شہر میں میت کو دفن کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عہد میں عملی سنت یہ رہی ہے کہ مردوں کو اسی شہر میں دفن کیا جاتا رہا ہے جہاں ان کی وفات ہوئی اور شہداء کو بھی وہیں دفن کیا جاتا رہا ہے جہاں انہوں نے شہادت پائی۔ کسی بھی صحیح حدیث یا اثر سے یہ ثابت نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کو اس شہر کے قبرستان کے علاوہ جہاں اس کی وفات ہوئی، کسی اور شہر، یا اس کے مضافات یا اس کے قریب کسی اور جگہ دفن کیا گیا ہو۔ اسی وجہ سے جمہور فقہاء یہ فرماتے ہیں کہ کسی صحیح غرغ کے بغیر میت کو دفن کرنے کے لیے اس شہر کے علاوہ جہاں اس کی وفات ہوئی ہو کسی اور شہر میں دفن کیا جائے۔ غرض صحیح یہ ہے کہ مثلا اگر اس شہر میں اسے دفن کیا جائے تو کسی دشمنی اور جھگڑے وغیرہ کی وجہ سے اس کی قبر کی بے حرمتی اور توہین کیے جانے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ اسے کسی ایسی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں اس طرح کا کوئی ڈر نہ ہو یا اسے اس کے اپنے شہر میں اس لیے منتقل کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کے اہل خانہ بھی اس کی زیارت کر سکیں اور اس طرح ان کی دلجوئی بھی کی جا سکے لیکن اس طرح کی جواز کی صورتوں کے باوجود یہ شرط ہے کہ اس میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ میت میں تبدیلی کا عمل شروع ہو جائے یا اس کی بے حرمتی کا اندیشہ ہو۔ اگر اس طرح کا کوئی حقیقی سبب موجود نہ ہو یا یہ شرطیں پوری نہ ہوتی ہوں تو پھر میت کو منتقل کرنا جائز نہیں۔
برکت کی امیس سے افضل شہر کی طرف منتقل کرنے کی اجازت دینے میں ایک خرابی کا پہلو بھی ہے جسے بعد میں ختم کرنا بہت مشکل ہو جائے گا اور وہ یہ کہ اس طرح تو پھر بہت سے لوگ یہ چاہیں گے کہ اسی غرض سے انہیں بھی یہاں دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ اس لیے کمیٹی کی یہ رائے ہے کہ ہر میت کو اسی شہر کے قبرستان میں دفن کیا جائے جہاں اس کا انتقال ہوا ہو اور کسی صحیح مقصد کے بغیر اسے کسی دوسرے شہر میں منتقل نہ کیا جائے تاکہ سنے کے مطابق عمل ہو سکے، سلف امت کے عمل کی اتباع ہو سکے، سد ذریعہ ہو سکے، شریعت نے میت کو جلد دفن کرنے کا جو حکم دیا ہے اس پر عمل ہو سکے، میت کو خراب ہونے سے بچایا جا سکے، شرعی ضرورت و حاجت کے بغیر خرچ ہونے والے مال میں اسراف سے بچا جا سکے اور اس کی بجائے اس مال سے وارثوں کے حقوق ادا کیے جائیں اور اس مال کو شرعی مصارف اور نیکی کے کاموں میں خرچ کیا جائے۔ اس فتویٰ پر کمیٹی کے تمام ارکان نے دستخط کئے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب