السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز جنازہ کے بعد دعا کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’دعا عبادت کی روح ہے۔‘‘(جامع الترمذي، الدعوات، باب ما جاء فی نفل الدعاء ح:3371) بندے کا اپنے رب سے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے مانگنا اور اپنی ضرورت و حاجت برابری کے لیے اپنے مولا کے سامنے عجزو نیاز اور عبودیت کا اظہار کرنا ایک ایسا کام ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ترغیب دی ہے، چنانچہ فرمایا:
﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم...٦٠﴾...سورة غافر
’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ادعوا رَبَّكُم تَضَرُّعًا وَخُفيَةً...٥٥﴾... سورة الاعراف
’’(لوگو!) اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول و عمل سے دعا کی تقلین فرمائی ہے اور دعا میں اصل اطلاق ہے الا یہ کہ کسی وقت کے ساتھ اس کی قید ثابت ہو جائے یا کسی حالت یا کسی وقت معین میں کثرت کے ساتھ دعا کی ترغیب ثابت ہو مثلا نماز میں بحالت سجدہ یا رات کے آخری حصہ میں دعا کی ترغیب موجود ہے لہذا اطلاق و تقیید کے بارے میں مسلمان کو صرف اسی کی پابندی کرنا چاہیے جو نصوص سے ثابت ہو۔ نماز جنازہ کی احادیث میں میت کے لیے دعا کرنا ثابت ہے اسی طرح دفن سے فراغت کے بعد بھی میت کے لیے دعا اور استغفار ثابت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معلوم تھا کہ جب آپ میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو قبر کے پاس کھڑا ہو جاتے اور فرماتے:
(استغفروا لاخيكم واسالوا له بالتثبيت فانه الان يسال) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب الاستغفار عند القبر... الخ‘ ح: 3221)
’’اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیا جائے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ جب قبروں کی زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تو اہل قبور کے لیے دعا فرماتے اور حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو زیارت قبور کی دعا اس طرح سکھاتے جس طرح آپ قرآن مجید کی سورتیں سکھایا کرتے تھے لیکن نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہے۔ نہ آپ کی سنت سے یہ ثابت ہے اور نہ حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت ہی سے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ کرام نے نماز جنازہ کے بعد دعا کی ہوتی تو وہ بھی اسی طرح ثابت ہوتی جس طرح آپ سے نماز جنازہ میں، زیارت قبور کے موقع پر اور دفن سے فراغت کے بعد دعا ثابت ہے، لہذا جب نماز جنازہ کے بعد آپ سے دعا ثابت نہیں ہے تو اسے یقینا بدعت قرار دیا جائے گا اور کسی بھی مسلمان کو اس موقعہ پر دعا کرنا زیب نہیں دیتا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
(عليكم بسنتي وسنه الخلفاء الراشدين المهديين وياكم ومحدثات المور...) (سنن ابي دود‘ السنة‘ باب في لزوم السنة‘ ح: 4607)
’’میری سنت اور (میرے بعد کے) ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو اور دین میں نئے نئے کاموں سے بچو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب