السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم غائبانہ نماز جنازہ کس طرح پڑھیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غائبانہ نماز جنازہ بھی حاضر میت کی نماز جنازہ کی طرح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
’’جب نجاشی کے انتقال کی خبر دی تو آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ عید گاہ میں چلیں۔ وہاں آپ نے لوگوں کی صفیں بنا دیں اور پھر اسی طرح چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی۔‘‘(صحیح بخاري، الجنائز، باب الصلاة علی الجنائز الخ، حدیث:11327-1328 وصحیح مسلم، باب فی التکبیر علی الجنازة، حدیث:951) جس طرح آپ حاضر میت کی نماز جنازہ پڑھا کرتے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے حتیٰ کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ہر شام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ یہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے جو آج زمین کے مشرق یا مغرب میں فوت ہوا ہے۔ کچھ دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ ہر ایک کی تو نہیں بلکہ صرف اس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ ایک تیسرے گروہ کا یہ کہنا ہے کہ ہر اس شخص کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیا ہو۔ ان میں سے راجح قول یہی ہے کہ صرف اسی شخص کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی جائے جس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو۔
خلفاء راشدین رضی اللہ عنھم کے عہد میں بہت سی ایسی شخصیتیں فوت ہوئیں جن کے مسلمانوں پر بہت احسانات تھے لیکن ان میں سے کسی کی بھی غائبانہ نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی۔ عبادات کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ توقف کیا جائے الا یہ کہ ان کی مشروعیت کی دلیل موجود ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب