سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) غسل میت کا شرعی طریقہ

  • 8570
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1446

سوال

(31) غسل میت کا شرعی طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی، میت کو غسل دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو غسل دینے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انسان، میت کی شرم گاہ دھوئے، پھر اسے غسل دینا شروع کرے اور پہلے اسے وضو کرائے لیکن اس کے منہ ور ناک میں پانی نہ ڈالے بلکہ کپڑے کو پانی سے تر کر کے اس کے منہ اورر ناک کو صاف کر دے، پھر باقی جسم کو ایسے پانی سے دھوئے جس میں بیری کے پتے ملے ہوئے ہوں (وہ اس طرح کہ) بیری کے پتے باریک کوٹ کر پانی میں ملائے جائیں اور پھر پانی میں ہاتھ ڈال کر ہلایا جائے حتیٰ کہ بیری کے پتوں کا جھاگ پیدا ہو جائے تو جھاگ لے کر سر اور داڑھی کو دھو دے اور باقی پتوں کے ساتھھ باقی سارے جسم کو ابھی طرح دھو دیا جائے، بیری کے پتوں کے استعمال سے خوب اچھی طرح صفائی ہو جائے گی۔ آخری بار جسم پر پانی بہاتے ہوئے اس میں کافور بھی شامل کر لیا جائے جو کہ ایک معروف خوشبو ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ کافور کے استعمال کے فائدے یہ ہیں کہ اس سے جسم سخت ہو جاتا ہے اور کیڑے مکوڑے بھاگ جاتے ہیں۔

اگر میت کے جسم پر میل زیادہ ہو تو اسے زیادہ بار غسل دیا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین سے فرمایا تھا جو آپ کی صاجزادی کو غسل دے رہی تھیں:

(اغسلنا ثلاثا او خمسا او سبعا او اكثر من ذلك ان رايتن ذلك) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب يجعل الكافور في الاخيرة‘ ح: 1259 وصحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب في غسل الميت‘ ح: 939)

’’اسے تین بار یا پانچ بار یا سات بار غسل دو اور اگر ضرورت محسوس کرو تو اس سے زیادہ بار بھی غسل دے سکتی ہو۔‘‘

غسل کے بعد میت کے جسم سے پانی کو صاف کر دیا جائے اور اسے کفن پہنچا دیا جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ 46 

محدث فتویٰ

تبصرے