سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) مسجدوں کی آبادی نماز سے ہے

  • 8567
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1476

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّما يَعمُرُ‌ مَسـجِدَ اللَّهِ مَن ءامَنَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌...١٨﴾... سورة التوبة

’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

اس آیت میں (یعمر) (آباد کرتے ہیں) کے کیا معنی ہیں؟ کیا کافروں کا تعمیر مسجد میں مدد کرنا جائز ہے؟ کیا مسجد بنانے کے لیے عیسائی مزدوروں سے کام لیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقیقت میں مسجد کی آبادی اس میں نماز، اطاعت، اعتکاف اور دیگر بدنی و قولی عبادتوں کے بجا لانے سے ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو مسجد میں تقرب الہی کے حصول کی مختلف صورتوں کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اس آیت میں ان لوگوں کے ایمان کی گواہی بھی دی گئی ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے، جسے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن قرار دیا ہے:

(اذا رايتم الرضل يتعاهد المسجد فاشهدوا له بالايمان) (جامع الترمذي‘ الايمان‘ باب ما جاء في حرمة الصلاة‘ ح:2618)

’’جب تم کسی آدمی کو کثرت سے مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو اس کے ایمان کے گواہ بن جاؤ۔‘‘

آپ نے یہ بات اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکوں کے اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے کی نفی کی گئی ہے۔

اجروثواب کے حصول کے لیے پاک کمائی کو مسجد بنانے میں خرچ کرنا بھی اس کی آبادی میں داخل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر مسجدیں بنانے کی فضیلت بھی احادیث میں آئی ہے۔ اگر کفار مسجدوں کی تعمیر کے لیے مالی مدد کریں تو یہ ان کے لیے منفعت بخش نہ ہو گی، کیونکہ شرک کی وجہ سے ان کے سارے اعمال رائیگاں ہو جاتے ہیں لیکن اگر وہ اپنے مال سے مسجد بنائیں یا اس میں مالی طور پر حصہ ڈالیں تو اس مسجد میں نماز جائز ہو گی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

مساجد کے احکام:  ج 2  صفحہ40

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ