سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) مکہ کی دیگر مساجد میں نماز مسجد حرام میں نماز کی طرح نہیں ہے

  • 8565
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1633

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مکہ کی دیگ مساجد میں نماز کا ثواب مسجد حرام ہی کی طرح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ دیگر مساجد میں ثواب مسجد حرام کی طرح نہیں ہے کیونکہ نماز کا کئی گنا زیادہ اجر و ثواب مسجد حرام (یعنی مسجد کعبہ) ہی میں ملتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(صلاة فيه افضل من الف صلاة فيما سواة من المساجد‘ الا مسجد الكعبة) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب فضل الصلاة بمسجدي مكة والمدينة‘ ح:1396)

’’اس (مسجد نبوی) میں نماز دیگر مساجد کی ایک ہزار نماز سے افضل ہے ہاں البتہ مسجد الحرام میں اس سے بھی زیادہ افضل ہے۔‘‘

حرم کے اندر کی دیگر مساجد بلا شک و شبہ حرم کے باہر کی مساجد سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حدیبیہ میں قیام فرمایا اور اس کا کچھ حصہ حل میں ہے اور کچھ حرم میں تو آپ اس وقت نماز حرم میں ادا فرماتے تھے۔ جب مطلقا مسجد حرام کا ذکر ہو تو اس سے مراد حرم کی سب مسجدیں نہیں بلکہ خاص مسجد حرام ہی مراد ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـذا...٢٨﴾... سورة التوبة

’’مومنو! مشرک تو یقینا پلید ہیں سو اس برس کے بعد وہ مسجد الحرام کے پاس نہ جانے پائیں۔‘‘

اگر مسجد حرام سے مراد امیال کے اندر کا علاقہ ہوتا تو مشرکوں کے لیے امیال کے قریب آنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ ان سے دور رہنا ان کے لیے واجب ہوتا حالانکہ وہ امیال کے قریب آ سکتے ہیں، ان کے اندر داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس آیت میں الفاظ یہ ہیں:

﴿فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ﴾

’’وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں۔‘‘

تو اس سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام جس کا نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے، اس سے مخصوص مسجد حرام ہی مراد ہے، حرم مکہ کی دیگر مساجد نہیں۔ اس کی تائید نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے:

(لا تشد الرحال الا الي ثلاثة مساجد‘المسجد الحرام‘ ومسجد الرسول صلي الله عليه وسلم‘ ومسجد الاقصي) (صحيح البخاري‘ فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة‘ باب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة‘ ه: 1189)

’’شد رحال (بغرض ثواب رخت سفر باندھنا) صرف تین مسجدوں ہی کی طرف کیا جائےمسجد حرام، میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ (بی المقدس۔)‘‘

اور یہ سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسجد شعب یا مسجد جمیزہ کی طرف شد رحال کر کے جائے تو ہم کہیں گے کہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شد رحال صرف تین مسجدوں ہی کی طرف کیا جائے۔ اگر حرم کی ہر مسجد کی طرف شد رحال جائز ہوتا تو پھر دسیوں بلکہ سینکڑوں مسجدوں کی طرف شد رحال جائز ہوتا۔ ہاں البتہ جب حرم نمازیوں سے بھر جائے اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ بازار میں نماز ادا کریں تو ان بازار میں نماز ادا کرنے والوں کے لیے امید ہے کہ انہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا حرم کے اندر نماز ادا کرنے والو کو، کیونکہ انہوں نے حسب استطاعت عمل کیا ہے اور اس عبادت کے ادا کرنے میں اہل مسجد کے ساتھ شریک ہوئے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

مساجد کے احکام:  ج 2  صفحہ39

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ