سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) پرانی مسجدوں کے پتھروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا

  • 8564
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1867

سوال

(25) پرانی مسجدوں کے پتھروں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک انتہائی قدیم ترین مسجد ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے سیلابوں نے بھی اس کی عمارت کو بے حد شکستہ اور باقابل استعمال بنا دیا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں کوئی قبر بھی ہو تو کیا ایسی صورت میں کسی مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ اس کے پتھروں کو اپنے گھر منتقل کر کے ذاتی ملکیت بنا لے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی مسجد سیلاب یا دیگر اسباب کی وجہ سے خراب ہو جائے تو اہل محلہ کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کریں اور اس میں اقامت نماز کا اہتمام کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(من بني لله مسجدا بني الله له بيتا في الجنة) (صحيح ابن خزيمة: 2/268‘ ح: 1291 واصله في الصحيحين انظر صحيح البخاري‘ ح:450 وصحيح مسلم‘ ح: 533)

’’جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

(امر رسول الله صلي الله عليه وسلم ببناء المساجد في الدور‘ وان تنظف وتطيب) (مسند احمد : 6/279 وسنن ابي داود‘ الصلاة‘ باب اتخاذ المساجد في الدور‘ ح: 455)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے، انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے۔‘‘

اس حدیث میں "دور" کے لفظ سے مراد قبائل اور محلے وغیرہ ہیں۔ مساجد تعمیر کرنے کی فضیلت کے بارے میں اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ اگر محلہ میں کوئی اور مسجد ہو جس کی وجہ سے اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو پھر اس مسجد کی اینٹیں اور پتھر کسی دوسرے محلہ یا شہر کی ضرورت مند مسجد کے لیے استعمال کیے جائیں۔

مذکورہ مسجد جس شہر میں ہے اس کے حاکم، قاضی امیر یا سردار قبیلہ پر فرض ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے اور اس کے پتھروں کو دیگر ضرورت والی مساجد میں منتقل کر دے یا انہیں بیچ کر ان کی قیمت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کر دے۔ اہل شہر میں سے کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ حاکم کی اجازت  کے بغیر اس مسجد کی کسی چیز کو اپنے ذاتی استعمال میں لائے اور اگر اس مسجد میں کوئی قبر ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس قبر کو یہاں سے ہٹا دیا جائے اور اس میں موجود ہڈیوں کو۔۔۔ اگر وہ موجود ہوں۔۔۔ شہر کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے کیونکہ شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ مسجدوں میں قبریں ہوں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ قبروں پر مسجدیں بنائی جائیں کیونکہ یہ شرک کا ذریعہ اور قبروں کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہے جیسا کہ اصحاب قبور کے بارےمیں غلو سے کام لینے کی وجہ سے صدیوں سے اکثر مسلمان ممالک میں ایسا ہو رہا ہے۔ حدیث سے ثابت ہے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبروں کے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا تھا جو اس جگہ موجود تھیں، جہاں مسجد نبوی تعمیر کی گئی۔‘‘( صحيح بخاري‘ الصلاة‘ باب هل نبثت قبور مشركي الجاهلية‘ حديث: 428 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب ابتناء مسجد النبي صلي الله عليه وسلم‘ حديث: 524) صحیحین میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لعن الله اليهود والنصاري التخذوا قبور انبيائهم مساجد) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما يكره من اتخاذ المساجد علي القبور‘ ح: 1230 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور...االخ‘ ح:529)

’’اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔‘‘

صحیح مسلم میں ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تصلوا الي القبور‘ ولا تجلسوا عليها) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن الجلوس علي القبر والصلاة عليه‘ ح: 972)

’’قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹحو۔‘‘

صحیح مسلم ہی میں جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"الا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبيائهم وصاليه مساجد‘ الا فلا تتخذوا القبور مساجد‘ اني  انهاكم عن ذلك) (صحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المساجد علي القبور... الخ‘ ح:532)

’’تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحا کی قبروں کو مسجدین بنا لیتے تھے، خبردار تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘

صحیحین میں حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھن سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک گرجے کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور اس میں بنی ہوئی تصویروں کو بھی دیکھا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اولئك اذا مات منهم الرجل الصالح بنوا علي قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور اولئك شرار الخلق عندالله) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب بناء المسجد علي المسجد‘ ح:428‘ 1341 وصحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المسجد علي القبور‘ ح:528)

’’ان لوگوں میں سے جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں اس طرح کی تصوریں بناتے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری مخلوق میں سے بدترین شمار ہوتے ہیں۔‘‘

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم ‘ ان يجصص القبر‘ وان يقعد عليه وان يبني عليه) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن تجصيص القبر... الخ‘ ح: 970)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت (مقبرہ وغیرہ) بنائی جائے۔‘‘

اور صحیح سند کے ساتھ ترمذی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:

( وان يكتب عليها) (جامع الترمذي‘ الجنائز‘ باب ما جاء في كراهية تجصيص القبور‘ ح: 1052)

’’آپ نے قبروں پر لکھنے سے بھی منع فرمایا۔‘‘

یہ اور اس مضمون کی دیگر احادیث اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ قبروں پر عمارتیں بنانا، مسجدیں بنانا، ان میں نماز پڑھنا اور قبروں کو پختہ بنانا حرام ہے کیونکہ یہ اصحاب قبور کے ساتھ شرک کے اسباب میں سے ہے۔ اسی طرح قبروں پر غلاف اور چادریں چڑھانا، ان پر لکھنا، ان پر خوشبو لگانا اور عود سلگانا بھی اسی قبیل سے ہے، کیونکہ یہ سب کچھ غلو اور شرک کے اسباب و وسائل میں سے ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خود بھی ان تمام کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، خصوصا حکمرانوں کو اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیے، کیونکہ ان کے فرائض اور ذمہ داریاں دوسروں سے کہیں بڑھ کر ہیں کیونکہ انہیں ان منکرات کا ازالہ کی زیادہ قوت و طاقت حاصل ہے۔ حکمرانوں کی سستی اور بہت سے اہل علم کی خاموشی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ممالک میں ان خرابیوں کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کی خوب گرم بازاری ہے اور آج مسلمان بھی اسی طرح شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں جس طرح لات، عزٰی اور منات کے پجاری، اہل جاہلیت مبتلا تھے اور سلمان بھی آج وہی بات کہتے ہیں جو اہل بیت کہتے تھے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں ان کا قول نقل فرمایا ہے (وہ کہا کرتے تھے) :

﴿هـؤُلاءِ شُفَعـؤُنا عِندَ اللَّهِ...١٨﴾... سورة يونس

’’یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ما نَعبُدُهُم إِلّا لِيُقَرِّ‌بونا إِلَى اللَّهِ زُلفى...٣﴾... سورة الزمر

’’ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔‘‘

اہل علم نے ذکر فرمایا ہے کہ اگر قبر مسجد میں بنائی گئی ہو تو اس قبر کو اکھاڑنا اور مسجد سے دور کرنا ضروری ہے اور اگر مسجد بعد میں بنائی گئی ہو تو اس مسجد کو منہدم کر دینا ضروری ہے کیونکہ یہ مسجد ایک امر منکر کا باعث بنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قبروں پر مسجدیں بنانے سے منع فرمایا ہے۔ اس وجہ سے یہود و نصاری پر لعنت کی اور امت کو ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے اور آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے ہوئے فرمایا تھا:

(لا تدع صورة الا طمستها ولا قبرا مشرفا الا سويته) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب الامر بتسوية القبر‘ ح:969)

’’جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور اونچی قبر دیکھو اسے برابر کر دو۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے، انہیں دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے، قائدین کی اصلاح فرمائے، مسلمانوں کو تقویٰ کی بنیاد پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے، شریعت کے مطابق حکومت چلانے کی توفیق سے نوازے اور مخالف شریعت امور سے بچائے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

      ج  2 

تبصرے