السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد (اورکجی اختیار کرنے) کے کیا معنی ہیں اور اس کی کتنی قسمیں ہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحاد کے لغوی معنی تو میلان اور جھکاؤ کے ہیں، اسی معنی میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿لِسانُ الَّذى يُلحِدونَ إِلَيهِ أَعجَمِىٌّ وَهـذا لِسانٌ عَرَبِىٌّ مُبينٌ ﴿١٠٣﴾... سورة النحل
’’جس کی طرف یہ (تعلیم کی غلط) نسبت کرتے ہیں، اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔‘‘
قبر کی لحد بھی اسی سے مشتق ہے اور اسے لحد اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک طرف کو جھکی اور مائل ہوتی ہے۔ الحاد کی معرفت استقامت کی معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتی کیونکہ مثل مشہور ہے: ’’اشیاء کی معرفت ان کے اضداد سے ہوتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے بارے میں استقامت یہ ہے کہ ہم کسی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر اللہ کے اسماء وصفات پرایمان رکھیں ہمارا ان کی اس کنہ اور حقیقت پر ایمان ہو جو اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لائق ہے اور اس مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کا یہی قاعدہ ہے اور اب جب ہمیں اس بات میں استقامت کا علم ہوگیا تو یہ بھی از خود معلوم ہوگیا کہ اس بات میں الحاد سے کیا مراد ہے۔ اہل علم نے اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی کئی قسمیں ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اسماء وصفات کے بارے میں جو اعتقاد رکھنا واجب ہے اس سے گریز اختیار کرنا الحاد ہے اور اس کی کئی قسمیں ہیں، جو حسب ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں سے کسی کا انکار کرنا، مثلاً: جس طرح کوئی اسم ’’رحمن‘‘ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا نام ہونے سے انکار کر دے جیسا کہ اہل جاہلیت نے اس کا انکار کر دیا تھا، یا کوئی اسماء کو تو مانے مگر یہ اسماء جن صفات کو متضمن ہیں ان کا انکار کر ے جیسے بعض اہل بدعت نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’رحیم‘‘ تو ہے مگر ’’رحمت‘‘ کے بغیر اور وہ ’’سمیع‘‘ تو ہے مگر ’’سمع‘‘ کے بغیر۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام رکھا جائے جس نام سے اس نے اپنے آپ کو موسوم نہیں کیا ہے۔ اس کی اس کجروی کے الحاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تمام اسماء توقیفی ہیں، لہٰذا کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام رکھے جس سے اس نے خود اپنی ذات پاک کو موسوم قرار نہیں دیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف علم کے بغیر بات منسوب کرنے کی سازش شمارہوگی۔ اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادتی سے موسوم کیا جائے گا جیسا کہ فلاسفہ نے ’’الٰہ‘‘ کو علت فاعلہ کے نام سے موسوم قرار دیا ہے اور جس طرح کہ عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کو ’’اب‘‘ (باپ) کے نام سے موسوم کیا ہے۔
یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ اسماء مخلوق کی صفات پر دلالت کرتے ہیں، پھر وہ ان کی دلالت کو بطور تمثیل پیش کرے۔ اس کے الحادہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اسماء مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمثیل پر دلالت کرتے ہیں، تو اس نے اسماء کو ان کے مدلول سے خارج کردیا اور اس طرح وہ راہ استقامت سے بھٹک گیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو کفر پر دلالت کرنے والا قرار دے دیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ مثال بیان کرنا کفر ہے، اس لیے کہ اس سے حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کی تکذیب لازم آتی ہے:
﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ ﴿١١﴾... سورة الشورى
’’اس جیسی کوئی شے نہیں اور وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
نیز اس سے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کی تکذیب بھی لازم آتی ہے۔
﴿هَل تَعلَمُ لَهُ سَمِيًّا ﴿٦٥﴾... سورة مريم
’’بھلا تم کوئی اس کا ہم نام جانتے ہو؟‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد نعیم بن حماد خزاعی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے وہ کافر ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کا انکار کرے، جس سے اس نے خود اپنی ذات کی متصف کیا ہے، تو وہ بھی کافر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں کوئی تشبیہ نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اسماء سے بتوں کے لیے نام تراش لیے جائیں جیسا کہ مشرکین نے اپنے بتوں کے لیے الٰہ سے لات، عزیز سے عزیٰ اور منان سے منات کے نام تراش لیے تھے۔ اس کے الحاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے مخصوص ہیں، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ ان پر دلالت کرنے والے معانی کو مخلوق میں سے کسی کی طرف منتقل کر دیا جائے اور اسے عبادت کا حق دیا جائے، جس کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء میں الحاد کی مختلف صورتیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب