السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض مسجدیں، عید گاہیں اور نماز استسقاء ادا کرنے کے لیے بنائی گئی جگہیں قبرستان کے بہت قریب بنی ہوتی ہیں کہ قبرستان مسجد کے قبلہ کی طرف ہوتا ہے اور درمیان میں صرف چند میٹر کا فاصلہ ہوتا ہے، جب کہ بعض مسجدیں اور عید گاہیں بالکل قبرستان کے ساتھ ہی ملی ہوتی ہیں۔ بعض کے درمیان صرف چار دیواری ہی حد فاصل ہوتی ہے جب کہ بعض میں کوئی ایسی چار دیواری بھی نہیں ہوتی جو دونوں کے درمیان حد فاصل کا کام دے سکے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر ان مسجدوں اور نماز عیدین و استسقاء کے لیے بنائی گئی جگہوں (عید گاہوں) کو قبرستان کے قریب اس میں مدفون لوگوں کی تکریم کی وجہ سے نہ بنایا گیا ہو یا یہ مقصود نہ ہو کہ ان مسجدوں میں نماز پڑھنے سے اجروثواب زیادہ ملے گا تو پھر ان کا بنانا اور ان میں تقرب الہی کے حصول کے لیے نماز پڑھنا جائز ہے۔ نماز اور مسجد میں ادا کی جانے والی دیگر تمام عبادات صحیح ہیں اور جن مسجدوں اور قبرستانوں کو دیوار کے ذریعہ الگ کر دیا گیا ہو تو یہ کافی ہے اور جہاں دیوار نہیں ہے وہاں دیوار بنا دی جائے تاکہ مسجدیں، عید گاہیں اور قبرستان الگ الگ ہو جائیں اور اگر مسجد و عید گاہ کی دیوار اور قبرستان کی دیوار کے درمیان خالی جگہ رکھنا ممکن ہو تو اس میں اور بھی زیادہ احتیاط ہے۔
اگر مسجدوں کو قبرستان کے قریب قبروں کی تعظیم کی وجہ سے بنایا گیا ہو تو پھر ان میں نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ ضرروی ہے کہ ان مسجدوں کو گرا دیا جائے کیونکہ اس صورت میں ان کو برقرار رکھنا شرک کا سبب اور اہل قبور کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنانے کا ذریعہ ہے اور صحیح حدیث میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا تصلوا الي القبور‘ ولا تجلسوا عليها) (صحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب النهي عن الجلوس علي القبر والصلاة عليه‘ ح:972)
’’قبروں کی طرف منہ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔‘‘
یہ بھی صحیح حدیث میں ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
(الا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبيائهم وصاليهم مساجد‘ الا فلا تتخذوا القبور مساجد‘ اني انهاكم عن ذلك) (صحيح مسلم‘ المساجد‘ باب النهي عن بناء المساجد علي القبور...الخ‘ ح:532)
’’خبردار! بلاشبہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا کرتے تھے۔ تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘
اس موضوع کی دیگر احادیث بھی مخفی نہیں ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب