سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) قدیمی مسجد کو منہدم کر کے اس کی جگہ پبلک لائبریری بنانا

  • 8550
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1110

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قدیمی مسجد کو جو ابھی تک قائم ہو، منہدم کرنا جائز ہے تاکہ اس کی جگہ پر ایک پبلک لائبیری بنا دی جائے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو کیا یہ جائز ہے کہ مسجد کی جگہ کا معاوضہ لے لیا جائے یا مسجد کی انتظامیہ کو کیا اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ اس کی بجائے کیس دوسری جگہ نئی مسجد قبول کر لیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قائم شدہ مسجد کو منہدم کرنا جائز نہیں، خواہ وہ کتنی ہی قدیم کیوں نہ ہو، تاکہ اس کی جگہ پر ایک پبلک لائبریری بنا دی جائے بلکہ اگر مسجد منہدم ہو چکی ہو تو پھر بھی اس کی جگہ پر پبلک لائبریری بناناجائز نہیں، بلکہ واجب یہ ہے کہ اگر مسجد کی عمارت پرانی ہو چکی ہو تو اس کی اصلاح کر دی جائے اور اگر از خود منہدم ہو چکی ہے تو اس کی جگہ از سر نو مسجد تعمیر کر دی جائے خواہ اس کی اصلاح و تعمیر کی غرض سے اس کے کچھ حصے کو بیچنا ہی کیوں نہ پڑے کیونکہ وقف کے سلسلہ میں اصول تو یہی ہے کہ اسے بیچا جائے نہ ہبہ کیا جائے اور نہ بطور وراثت تقسیم کیا جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس وقت فرمایا تھا، جب انہوں نے خیبر میں اپنے مال کو صدقہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا:

(تصدق باصله لا يباع ولا يوهب وال يورث ولكن ينفق ثمره) (صحيح البخاري‘ الوصايا‘ باب وما للوصي ان يعمل...الخ‘ ح:2764)

یہ ارشاد نبوی گویا ہر وقف کے بارے میں ایک حکم عام کی حیثیت رکھتا ہے لیکن علماء نے اس صورت کو مستثنی قرار دیا ہے کہ جب وقف کی افادیت ختم ہو جائے یا اسے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے میں اس کی افادیت زیادہ ہو، لوگوں کی اس میں دلچسپی زیادہ ہو اور خود وقف کی اصلاح کے لیے بھی بہتر ہو تو پھر اس کی بیع یا کسی دوسری جگہ سے اس کا تبادلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی کہ کوفہ کے بیت المال میں نقب زنی کی واردات ہو گئی ہے تو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تمارین (جگہ) میں مسجد کو منتقل کر دو اور بیت المال کو مسجد کے قبلہ کی طرف بنا دو کیونکہ مسجد میں ہر وقت کوئی نہ کوئی نمازی موجود ہوتا ہے (اس طرح بیت المال محفوظ رہے گا۔)فتاوي ابن تيميه (216/31)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی موجودگی میں یہ فیصلہ فرمایا اور جب کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تو گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماع ہو گیا اور جب وقف کو اپنی اصلی شکل و صورت میں باقری رکھنا مشکل ہو تو پھر اس کے بقاء کی صرف یہی صورت ہے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جواز کی حالت میں وقف کی بیع یا تبادلہ شرعی حاکم یا اس کے نائب کے ہاتھوں سے ہو تاکہ وقف کے سلسلہ میں احتیاط اور حفاظت کا پہلو پیش نظر رہے اور وقف ضائع نہ ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

مساجد کے احکام:  ج 2  صفحہ28

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ