سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(31) علوِ ذات، نبی کریم ﷺ کا سوال اور عورت کا جواب

  • 855
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1510

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالیٰ کے علو کے بارے میں سلف کا کیا مذہب ہے؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شش جہات سے خالی ہے اور وہ ہر مرد مومن کے دل میں ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

سلف رحمہم اللہ  کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنے بندوں کے اوپر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَإِن تَنـزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورة النساء

’’اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو، تو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ...﴿١٠﴾... سورة الشورى

’’اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿ إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَسولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا وَأُولـئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٥١ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَخشَ اللَّهَ وَيَتَّقهِ فَأُولـئِكَ هُمُ الفائِزونَ ﴿٥٢﴾... سورة النور

’’مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا۔ اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الأحزاب

’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنا بھی کچھ حق اختیار محفوظ رکھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ راہ راست سے بھٹک کر صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّى يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورة النساء

’’تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں، تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘

ان آیات کریمہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تنازع کے وقت مومنوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور ان کے سامنے سر اطاعت خم کر دیتے ہیں نیزاس کے سوا ان کو کوئی اختیار نہیں۔ ایمان اسی سے مکمل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ خوشی خوشی اس حکم کو تسلیم کر لیں اگراس کے سوا کوئی اور رستہ اختیار کیا گیا تو وہ اس آیت کریمہ کے موجب ہوگا:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدى وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّى وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورةالنساء

’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘

اس تمہید کے بعد جو شخص بھی علو باری تعالیٰ کے بارے میں غور کرے گا اور اسے کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹائے گا تواس کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ تمام وجوہ دلالت کے ساتھ کتاب وسنت کی صراحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی تمام مخلوق سے اوپر ہے، قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف عبارتوں میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے:

۱۔            نمبرایک اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، مثلاً:

﴿أَم أَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ أَن يُرسِلَ عَلَيكُم حاصِبًا فَسَتَعلَمونَ كَيفَ نَذيرِ﴿١٧﴾... سورة الملك

’’کیا تم اس سے، جو آسمان میں ہے، نڈر ہو کہ وہ تم پر مٹی اور کنکریاں اڑاتی آندھی بھیج دے، سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے؟‘‘

اور مریض کو دم کرنے والی دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

«رَبُّنَا اللّٰهُ الَّذِیْ فِی السَّمَاَءِ»(سنن ابی داود، الطب، باب کیف الرقی، ح: ۳۸۹۲)

’’ہمارا رب وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے۔‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَّدْعُو امْرَأَتَهُ اِلَی فِرَاشِهَا فَتَأْبٰی عَلَيْهِ اِلاَّ کَانَ الَّذِیْ فِی السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّی يَرْضٰی عَنْهَا»(صحیح البخاری، بدء الخلق، باب اذا قال احدکم آمین والملائکة فی السماء آمین، ح:۳۲۳۷ ومسلم، النکاح، باب تحریم امتناعها عن فراش زوجها، ح: ۱۴۳۶ واللفظ له)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کر دے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے، اس وقت تک اس سے ناراض رہتی ہے، جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے خوش نہ ہو جائے۔‘‘

۲۔           نمبردواللہ تعالیٰ کی فوقیت کے بارے میں اس مرتبہ علو کی تصریح واردہوئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَهُوَ القاهِرُ فَوقَ عِبادِهِ...﴿١٨﴾... سورة الأنعام

’’اور وہ اپنے بندوں کے اوپر ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يَخافونَ رَبَّهُم مِن فَوقِهِم...﴿٥٠﴾... سورة النحل

’’وہ اپنے پروردگار سے، جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہے:

« ان الله لَمَّا قَضیُ الْخَلْقَ کَتَبََ عِنْدَهُ فَوْقَ عرشهِ اِنَّ رَحْمَتِی سبقتْ غَضَبِی»(صحیح البخاري، بدء الخلق، باب ماجاء فی قوله تعالی: ﴿وهو الذی یبدؤا الخلق ثم یعده﴾ ح: ۳۱۹۴ وصحیح مسلم، التوبة، باب سعة رحمة اللہ تعالٰی وانها تغلب غضبه، ح: ۲۷۵۱)

’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا دیاجو اس کے پاس عرش پر ہے کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘

۳۔           نمبر تین اس بات کی تصریح ورود کہ چیزیں اس کی طرف چڑھتی اور اس کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ صعود اوپر ہی کی طرف ہوتا ہے اور نزول اوپر سے نیچے کی طرف، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِلَيهِ يَصعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصّـلِحُ يَرفَعُهُ...﴿١٠﴾... سورة الفاطر

’’اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿تَعرُجُ المَلـئِكَةُ وَالرّوحُ إِلَيهِ...﴿٤﴾... سورة المعارج

’’اس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے چڑھتے ہیں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الأَرضِ ثُمَّ يَعرُجُ إِلَيهِ...﴿٥﴾... سورة السجدة

’’وہی آسمان سے زمین تک (کے) ہر کام کا انتظام کرتا ہے، پھر وہ (معاملہ) اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا:

﴿لا يَأتيهِ البـطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ﴿٤٢... سورة فصلت

’’اس پر جھوٹ کا دخل آگے سے ہوتا ہے نہ پیچھے سے (اور یہ کتاب) دانا (اور) خوبیوں والے (اللہ) کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘

اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، فرمایا :

﴿وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِكينَ استَجارَكَ فَأَجِرهُ حَتّى يَسمَعَ كَلـمَ اللَّهِ...﴿٦﴾... سورة التوبة

’’اور اگر کوئی مشرک پناہ کا طلب گار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے۔‘‘

جب قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ بھی تو اللہ کی ذات کے علو کی دلیل ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

((يَنْزِلُ رَبُّنَاٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِی…»(صحیح البخاري، التهجد، باب الدعاء والصلاة من آخر اللیل، ح: ۱۱۴۵ وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل والاجابة فیه، ح:۷۵۸)

’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا رب تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے (جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہے) اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے…‘‘الخ

حدیث براء بن عازب رضی اللہ عنہ  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے بستر پر لیٹتے وقت کی جو دعا سکھائی تھی اس میں یہ کلمات بھی ہیں:

«آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ»(صحیح بخاري، الدعوات، باب ما یقول اذا نام، ح:۶۳۱۴ وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع، ح: ۲۷۱۰)

’’میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی اور تیرے اس نبی پر بھی ایمان لایا جسے تو نے مبعوث فرمایا۔‘‘

۴۔           اللہ تعالیٰ کے علو کے ساتھ موصوف ہونے کی تصریح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الأَعلَى ﴿١... سورة الأعلى

’’آپ اپنے سب سے بلند رب کے نام کی تسبیح کریں۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ ﴿٢٥٥﴾... سورة البقرة

’’اور اس کے لیے ان دونوں (آسمان و زمین) کی حفاظت کچھ دشوار نہیں اور وہ بڑا بلند، نہایت عظمت والا ہے۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے الفاظ ہیں:

«سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی»(سنن ابي داؤد، الصلاة، باب ما یقول الرجل فی رکوعه وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریئ… ح:۱۰۰۹)

’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و بالا ہے۔‘‘

۵۔           نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف اشارہ کرنا، خصوصا عرفہ کے عظیم وقوف کے وقت جس موقعہ سے اپنی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے سب سے عظیم اجتماع میں لوگوں سے پوچھا تھا:

«أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ»(صحیح البخاری، الحج، باب الخطبة ایام منی، ح:۱۷۴۱ وصحیح مسلم، الحج، باب حجة النبیﷺ، ح:۱۲۱۸)

’’کیا میں نے تم تک پہنچا دیا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے اللہ! تو بھی گواہ ہو جا۔‘‘

آپ اس موقعہ پر یہ کلمات فرماتے ہوئے اپنی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف لے آتے تھے اور ان کی طرف اشارہ کرتے جاتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، ورنہ آسمان کی طرف انگلی اٹھانے کے کوئی معنی نہ تھے۔

۶۔           نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک باندی سے پوچھا: ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: آسمان میں۔ تب آپ نے فرمایا:

«اَعْتِقْهَا فَاِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ»(صحیح مسلم، المساجد، باب تحریم الکلام فی الصلاة… ح:۵۳۷)

’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘

امام مسلم رحمہ اللہ  نے اس واقعہ کو معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ  کی ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے  اس سے اللہ تعالیٰ کا ذاتی علو نہایت صراحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ حرف استفہام اَیْنَ کے ساتھ مکان کے بارے میں سوال کیا گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس عورت سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اور اس نے اس کا یہ جواب دیا کہ وہ آسمان میں ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کی تائید فرمائی اور آپ نے جو یہ فرمایا: ’’اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک یہ اقرار نہ کرے اور یہ عقیدہ نہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے۔

کتاب اللہ اور سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف انواع واقسام کے ایسے دلائل موجود ہیں جن کا تعلق سماع اور خبر سے ہے، اورجو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی ساری مخلوق کے اوپر ہے اس بارے میں دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس جگہ بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان نصوص کے تقاضے کے مطابق سلف صالحین علیہما السلام   نے بالاجماع اللہ کے لیے ذاتی علو کو ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ اپنی ساری مخلوق سے اوپر اور بلند ہے جیسا کہ ان کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ معنوی طور پر بھی، یعنی اپنی صفات کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَهُ المَثَلُ الأَعلى فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ ﴿٢٧﴾... سورة الروم

’’اور آسمانوں اور زمین میں اس کی شان نہایت بلند ہے اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلِلَّهِ الأَسماءُ الحُسنى فَادعوهُ بِها...﴿١٨٠﴾... سورة الأعراف

’’اور اللہ کے سب نام ہی اچھے ہیں، سو تم اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَلا تَضرِبوا لِلَّهِ الأَمثالَ إِنَّ اللَّهَ يَعلَمُ وَأَنتُم لا تَعلَمونَ ﴿٧٤﴾... سورة النحل

’’پس (لوگو!) اللہ کے بارے میں (غلط مثال) نہ بناؤ بلا شبہ (صحیح مثالوں کا طریقہ) اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿فَلا تَجعَلوا لِلَّهِ أَندادًا وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٢﴾... سورة البقرة

’’پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اس حال میں کہ تم جانتے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے ذاتی علو پر جس طرح نصوص کتاب وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے ہیں، اسی طرح عقل و فطرت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک عقل کی دلالت کا تعلق ہے تو کہا جائے گا کہ بے شک علو صفت کمال ہے اور کمال کی ضد صفت نقص ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے صفات کمال ہی ثابت ہیں، لہٰذا واجب ہے کہ ’’علو‘‘ کو بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت مانا جائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے کسی چیز کو ثابت کرنے سے اللہ کی ذات میں نقص لازم نہیں آتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا  صفت’’علو‘‘ سے متصف ہونااس بات کو متضمن نہیں کہ اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اگر کوئی ایسا گمان کرتا ہے تو اس کا اس قسم کا وہم، گمراہی اور بے عقلی ہے۔

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ذاتی علو پر فطرت کی دلالت کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کو پکارے، خواہ اس کی یہ پکار عبادت کے طور پر ہو یا دعا کے طور پر اس موقعہ سے اس کا دل اس پکار تے وقت آسمان کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور دعاء کرنے والا تقاضائے فطرت کے مطابق آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا لیتا ہے، جیسا کہ ہمدانی نے ابو المعالی الجوینی سے کہا تھا: ’’جب بھی کوئی عارف کہتا ہے: یا رب! تو وہ اپنے دل میں ضرورتاً طلب علو کو موجزن پاتا ہے۔‘‘ یہ سن کر امام جوینی نے اپنے سر پر طمانچا مارنا اور یہ کہنا شروع کر دیا: ’’ہمدانی نے مجھے حیران کر دیا، ہمدانی نے مجھے حیران کر دیا۔‘‘ ان کے بارے میں اسی طرح منقول ہے، خواہ صحیح ہو یا نہ ہو، بہرحال ہم میں سے ہر ایک محسوس اسی طرح کرتا ہے۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یارب! یارب!… الخ (صحیح مسلم، الزکاة، باب قبول الصدقة  من الکسب الطیب… حدیث: ۱۰۱۵)

پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نمازی جب نماز پڑھتا ہے، تو اس کا دل آسمان کی طرف ہوتا ہے خصوصاً حالت سجدہ میں جب وہ یہ کہتا ہے:

«سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی»(سنن ابي داؤد، الصلاة، باب ما یقول الرجل فی رکوعه وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریئ… ح:۱۰۰۹)

’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و بالا ہے۔‘‘

اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اس کا معبود آسمان میں ہے جو پاک اور بلند ہے۔

ان لوگوں نے جو یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ شش جہات سے خالی ہے، تو یہ قول اپنے عموم کے اعتبار سے باطل ہے کیونکہ یہ اس چیز کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے لیے ثابت کیا ہے اور اسے اس شخص نے بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا ہے جو ساری مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں زیادہ جاننے والا اور اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تعظیم بجا لانے والا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آسمان میں ہے اور آسمان جہت علو میں ہے۔ اگر ان لوگوں کی اس بات کو درست مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ شش جہات سے خالی ہے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو معدوم قرار دے دیا جائے، کیونکہ شش جہات سے مراد اوپر، نیچے، دائیں بائیں، پیچھے اور آگے ہے اور ہر موجود چیز کے ساتھ ان چھ جہتوں میں سے کوئی نہ کوئی جہت متعلق ہوتی ہے، اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم اور عیاں ہے، لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے ان شش جہات کی نفی کر دی جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ وہ معدوم ہے۔ ذہن اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موجود اور ان نسبتوں میں سے کسی نسبت کے ساتھ تعلق سے خالی فرض (خیال) کرتا یا قرار دیتا ہے لیکن یہ ایک مفروضہ ہی ہے خارج (یعنی حقیقت) میں اس کا کوئی وجود نہیں ، کیونکہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے والے ہر مومن کے لیے اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس  مسئلہ پر بھی ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے اوپر ہے، جیسا کہ کتاب وسنت، اجماع سلف اور عقل و فطرت کی دلالت سے معلوم ومفہومہے، جیسا کہ ہم قبل ازیں بیان کرتے چلے آئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے بلاشبہ مخلوقات میں سے کوئی چیز اس کی ذات گرامی کا احاطہ نہیں کر سکتی اور اس کی ذات پاک اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں ۔ ہماری رائے یہ بھی ہے کہ کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ لوگوں میں سے کسی کے قول کی وجہ سے خواہ وہ کوئی بھی ہو، کتاب وسنت کے دائرے سے باہر نکلے، جیسا کہ قبل ازیں اس سوال کے جواب کے آغاز میں ہم یہ بیان کر چکے ہیں۔

انہوں نے جو یہ کہا ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ہے‘‘ تو اس بات کی کتاب اللہ، سنت رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) اور ہمارے علم کی حد تک یا سلف صالحین میں سے کسی کے قول سے کوئی دلیل نہیں ہے، اور پھر علی الاطلاق بھی یہ بات باطل ہے کیونکہ اگر اس بات سے مراد یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں حلول کیے ہوئے ہے تو اس قسم کا معتقد رکھنا قطعی طور پر باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اس سے بہت ہی عظیم الشان اور بے حد جلیل القدر ہے کہ وہ کسی بندے کے دل میں حلول کرے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک شخص کا دل اس بات سے توتنفر محسوس کرے جو کتاب وسنت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے لیکن اس بات پر اس کا دل مطمئن ہو جائے جس کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ہے۔ کتاب وسنت میں ایسا کوئی ایک حرف بھی نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ہے۔

اور اگر اس بات سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے دل میں ہمیشہ اپنے رب تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے تو یہ بات حق ہے، لیکن واجب یہ ہے کہ اس کا اظہار ایسی عبارت سے ہو جو اس حقیقت کو بیان کرتی اور باطل مدلول کی نفی کرتی ہو، مثلاً: یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہمیشہ مرد مومن کے دل میں ہوتا ہے۔ اس طرح بات کرنے والوں کے کلام سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارادہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کے بجائے اس معتقدکو اس کے بدلہ اختیار کریں کہ ’’وہ مومن کے دل میں ہے‘‘ اس معنی کے اعتبار سے یہ بات بالکل باطل ہے۔

مومن کو اس بات کے انکار سے ڈرنا چاہیے جس پر کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع سلف دلالت کرتے ہوں اور اسے ایسی مجمل اور مبہم باتیں اختیار نہیں کرنی چاہئیں جن میں حق اور باطل دونوں معنوں کا احتمال ہو، بلکہ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والے مہاجرین وانصار کے راستے کو اختیار کرے تاکہ وہ بھی اس آیت کریمہ کا مصداق بن جائے:

﴿وَالسّـبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهـرُ خـلِدينَ فيها أَبَدًا ذلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٠٠﴾... سورة التوبة

’’جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو انہی بندوں میں سے بنا ے(جوسابقین أولین)کے نقش قدم پر قائم ودائم ہوں اور ہم سب کو اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے، بے شک وہی عطا فرمانے والا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ77

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ