مریض کی طہا رت کے احکا م
اللہ سبحا نہ وتعالیٰ نے ہر نما ز کے لئے طہا ر ت کا حکم دیا ہے لہٰذا نا پا کی کو دور کر نا اور نجا ست کا ازالہ کر نا ۔خوا ہ وہ بد ن میں ہو یا کپڑے میں ہویا اس جگہ میں ہو جہا ں نما ز پڑھنی ہو ،نماز کی شرائط میں سے ہے لہٰذا جب مسلما ن نما ز کا ارادہ کر ے تو اس کے لئے واجب ہے کہ چھوٹی نا پا کی کی صورت میں وضوء کر ے اور بڑی کی صورت میں غسل کر ے اور بول و برا ز کی صورت میں ضروری ہے کہ پا نی کے سا تھ استنجا ء کیا جا ئے یا ڈھیلوں کو استعما ل کر لیا جا ئے تا کہ طہا رت ونظا فت مکمل طور پر حا صل ہو جا ئے طہا رت و نظا فت سے متعلق بعض احکا م کا ذکر حسب ذیل ہے : دونو ں راستوں سے نکلنے وا لی ہر چیز مثلاً بو ل و برا ز کی وجہ سے پا نی سے استنجا ء واجب ہے نیند یا محض ہو ا خا رج ہو نے کی وجہ سے استنجا ء نہیں ہے بلکہ صرف وضوء کر نا ہو گا کیو نکہ استنجا ء کا حکم تو ازالہ نجا ست کےلئے ہے اور نیند و خروج ہو ا کی صورت میں نجا ست نہیں ہے ۔ ڈھیلے پتھروں کے ہو ں یا جو چیز پتھروں کے قا ئم مقا م ہو سکتی ہو ڈھیلوں کےلئے ضروری ہے کہ وہ تین ہو ں اور پا ک ہو ں کیو نکہ نبی کریمﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فر ما یا :
(سنن ابی داودکتا ب الطہارا ۃ ،با ب الاستار فی الخلاء ،ح : 35/و سنن ابن ما جہ ، کتا ب الطہا ر ۃ ۔ح (337)
"جو شخص ڈھیلے استعما ل کر ے وہ طا ق استعمال کر ے "
نیز آپ ﷺ نے فر ما یا کہ:
(سنن ابی دود کتا ب الطہا رۃ با ب الاستجاء با لا حجا ر ،ح : 40)
"تم میں سے جب کو ئی قضاء حا جت کے لئے جا ئے تو وہ اپنے سا تین ڈھیلے لے جا ئے یہ اس کے لئے کا فی ہو ں گے ۔"نبی ﷺنے فر ما یا کہ ڈھیلے تین سے کم ہو ں لید۔ ہڈی اور کھا نے کی کسی چیز کو اور ہر اس چیز کو جو قابل احترا م ہو بطور ڈھیلا استعمال کر نا جا ئز نہیں ۔افضل یہ ہے کہ پتھروں کو بطور ڈھیلا استعما ل کیا جا ئے یا جو چیز یں ان سے مشا بہت رکھیں ،مثلاًٹشو پیپر وغیرہ اور پھر ڈھیلوں کے بعد پا نی استعما ل کیا جا ئے کیو نکہ پتھر عین نجاست کے زائل کر تے ہیں اور پا نی محل نجا ست کو پاک کر تا ہے لہذا اس سے خو ب خو ب صفا ئی ہو جا تی ہے ۔ آدمی کو اختیار ہے کہ وہ پا نی کےسا تھ استنجا ء کر ے یا پتھروں وغیرہ کے سا تھ صفائی کر ے ۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ:
(صحیح بخا ری کتا ب الوضوء ۔باب حمل العترۃ مع الماء فی الاستجاء ۔ح: (152)صحیح مسلم کتا ب الطہار ۃ با ب الا ستجا ء ،ح (271)
"نبی کر یم ﷺ جب خلا میں داخل ہو تے تو میں یا میر ے جیسا کو ئی اور لڑکا پا نی کا بر تن اور نیز ہ اٹھا لیتا اور آپ ﷺ پا نی سے استنجا ء فر ما تے ۔
"حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عورتوں کی ایک جما عت سے فر ما یا :
(جا مع الترمذی ۔کتا ب الطہا رۃ با ب ما جا ء فی الا ستجاء بالماء ۔ح : (19)
"اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پا نی سے طہا رت کریں ۔میں ان سے بات کر نے میں حیا محسوس کر تے ہو ں اور رسول ﷺ اسی طرح کیا کر تے تھے۔"اگر آدمی دونوں میں سے ایک پر اکتفا ء کر نا چا ہے تو افضل یہ ہے کہ پا نی پر اکتفا ء کر ے کیو نکہ پا نی مقا م کو بھی پا ک کر تا ہے اور عین نجا ست کو بھی زائل کر تا ہے ، اس سے نظا فت بھی خو ب ہو تی ہے اگر ڈھیلوں پر اکتفا ء کر ے تو پھر تین ڈھیلے استعما ل کر ے ۔اگر مقا م صا ف ہو جا ئے تو بہتر ور نہ چا ر اور پا نچ استعمال کر ے حتی کہ مقا م پا ک صاف ہو جا ئے لیکن افضل یہ ہے کہ آدمی طا ق تعداد میں استعمال کر ے کیونکہ نبی کر یم ﷺ نے فر ما یا :
من الستجمر فليوتر "جو ڈھیلے استعما ل کر ے ۔اسے طا ق استعما ل کر نا چاہیئں ۔"
(سنن ابی داود کتا ب الطہا رۃ با ب فی الخلا ء ۔ح : 35/)وسنن ابن ما جہ کتا ب الطہا ر ۃ ، ح :( 337/)
ڈھیلہ دائیں ہا تھ سے استعما ل نہیں کر نا چا ہئے کیو نکہ حضرت سلما ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فر ما یا کہ ا۔''
(صحیح بخا ری کتا ب الوضو ء ،با ب النہی عن الابالیمن ، ح (153/) وصحیح مسلم کتا ب الطہا رۃ باب النھیی عن الا ستجاء با لیمن ،ح :( 477/)۔
"ہم میں سے کو ئی دا ئیں ہا تھ سے استجا ء نہ کر ے پیشا ب کر تے ہو ئے دائیں ہا تھ سے اپنے آلہ تنا سل کو نہ پکڑو اور نہ دائیں ہا تھ سے استنجا ء کرو، "
اگر با یا ں ہا تھ کٹا ہو یا اس میں کو یہ بیما ری ہو تو پھر اس طر ح کی حالت میں بوقت ضرورت دایاں ہا تھ استعمال کر نے میں کو ئی حر ج نہیں ۔ اسلا می شریعت کی بنیا د چو نکہ آسا نی اور سہولت پر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے عذر میں مبتلا لو گو ں کے لئے عبا دا ت کے ادا کر نے میں حسب عذر تخفیف کر دی ہے تا کہ وہ کسی حرج اور مشقت کے بغیر اپنی عبادت ادا کر سکیں ،ارشاد با ری تعالیٰ ہے :
"اور (اللہ تعا لیٰ نے ) تم پر دین (کی کسی با ت ) پر تنگی نہیں کی ۔ "
اور فرما یا :
"اللہ تمہا رے حق میں آسا نی چا ہتا ہے سختی نہیں چا ہتا ۔"
اور فرمایا :
"سو جہا ں تک ہو سکے تم اللہ سے ڈرو۔"
نبی ﷺ نے فر ما یا ہے :
(صحیح بخا ری کتا ب الاعتصام با لکتا ب والسنۃ باب الا فتداء سنن رسول اللہ ﷺح : (7288)وصحیح مسلم کتا ب الحج با ب فرض الحج مرۃ فی العمر ۔ح: (1337)
"جب میں تمہیں کو ئی حکم دوں تو مقدور بھر اطاعت بجا لا ئو ۔"
اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی فر مایا کہ : "دین آسا ن ہے ۔" مریض کو جب پا نی کے سا تھ طہا رت حاصل کر نے کی استطاعت نہ ہو یعنی حدث اصغر کی صورت میں وضوء اورحدث اکبر کی صورت میں غسل کرنے سے عا جز ہو یا اس سے مر ض میں اضا فہ کا خو ف ہو یا بیما ری کے درست ہو نے میں تا خیر کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کر لے یعنی دونوں ہا تھوں کو پا ک مٹی پر ایک با ر مارے اور اپنی انگلیوں کے اندر کے حصے کو اپنے چیرہ پر پھیر لے اور ہتھلیوں کو دونوں با زوئوں پر پھیرے جیسا کہ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے :
"اگر تم بیما ر ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کو ئی بیت الخلا ء سے ہو کر آیا تم عورتوں سے ہم بستر ہو ئے ہو اور تمہیں پا نی نہ ملے تو پا ک مٹی لو اور منہ اور ہا تھوں کا مسح (کر کے تیمم کر لو) ۔"
جو شخص پا نی کے استعما ل سے عا جز ہو اس کا حکم وہی ہے جو اس شخص کا ہے جس کے پا س پا نی ہی نہ ہو کیو نکہ نبی ﷺ کا ارشا د گرامی ہے :
(صحیح بخا ری کتا ب بدء الرحیی با ب کیف کا ن بدء الوحیی الی رسول اللہ ﷺ ح : 1)
"اعما ل کا انحصا ر نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لئے صرف وہی ہے جس کی وہ نیت کرے ۔"
(1)مر ض معمولی ہو اور پا نی کے استعمال سے ہلا کت بیما ری میں اضا فہ شفا یا بی میں تا خیر اور درد میں نما یا ں اضا فہ کا کو ئی خدشہ نہ ہو جیسے سردرد یا داڑھ میں درد وغیرہ ہو یا مر یض کے لئے گر م پا نی کا استعما ل ممکن ہو اور اس سے اسے کو ئی نقصا ن نہ پہنچتا ہو تو اس کے لئے تیمم جائز نہیں کیونکہ تیمم کا جوا ز نفی ضرر کے لئے ہے اور یہا ں کو ئی ضرر ہے ہی نہیں اور پا نی بھی اس کے پا س مو جو د ہے لہٰذا اس کے لئے پا نی کا استعمال واجب ہے ۔
(2)۔اگر مر یض ایسا ہو کہ پا نی کے استعمال سے ہلا کت یا کسی عضو کے ناکا رہ ہو نے یا اس سے کسی ایسے مرض کے پیدا ہو نے کا اندیشہ ہو جس سے جا ن کو خطرہ لا حق ہو یا کو ئی عضو نا کا رہ ہو نے یا اس کی افادیت ختم ہو نے کا اندیشہ ہو تو ایسے مر یض کے لئے تیمم جا ئز ہے کیو نکہ ارشادباری تعا لیٰ ہے :
"اور اپنے آپ کو ہلا ک نہ کر و بلا شبہ اللہ تم پر مہر با ن ہے ۔ "
(3)اگر مر ض ایسا ہے کہآدمی چل پھر نہیں سکتا اور اس کے پا س کو ئی اور انسا ن بھی نہیں جو اسے مہیا کر سکے تو اس کے لئے بھی تیمم جا ئز ہے (4)جس شخص کے جسم پر زخم ہوں یا پھو ڑے پھنسیاں ہو ں یا کو عضو ٹو ٹا ہو ا ہو مرض ایسا ہو کہ پا نی کا استعمال نقصان دہ ہو اور وہ جنبی ہو جا ئے تو اس کے لئے سا بقہ دلا ئل کی بنیا د پر تیمم کر نا جا ئز ہے اور اگر اس کےلئے جسم کے صحیح حصے کا دھو نا ممکن ہوتو اسے دھو نا واجب ہو گا اور باقی حصے کا تیمم کر لے ۔
(5)اگر مر یاج کسی ایسی جگہ ہو جہا ں پا نی نہ ہو ۔ مٹی بھی نہ ہو اور نہ کو ئی ایسا شخص مو جو د ہو جو مٹی یا پا نی کا کر دے سکے تو وہ حسب حا ل اسی طرح نما ز پڑھ لے نما ز کو مئوخر کر نا جا ئز نہیں کیو نکہ ارشاد با ری تعا لیٰ ہے :
"سو جہا ں تک ہو سکے تم اللہ سے ڈرو ۔"
(5) سلسل البو ل کا وہ مر یض جو علا ج معالجہ سے بھی صحیح نہ ہو سکتا ہو تو اسے وقت ہو نے کے بعد ہر نما ز کے لئے وضوء کر نا چا ہئے اور جسم کے حصے کو دھو لینا چا ہئے جہا ں پیشاب لگا ہو ۔اگر مشقت نہ ہو تو نما ز کے لئے الگ پا ک کپڑے استعمال کر ے ورنہ اس کے لئے معا فی ہے اور وہ انہی کپڑوں میں نماز پڑھ سکتا ہے ارشاد با ر ی تعالیٰ ہے ۔
اور (اللہ تعالیٰ نے) تم پر دین (کی کسی با ت ) میں تنگی نہیں کی ۔ " نیزفر ما یا :
"اللہ تمہا رے حق میں آسا نی چا ہتا ۔" اور نبی ﷺنے فر ما یا کہ :
(صحیح بخا ری کتا ب الاعتصا م بالکتا ب والسنۃ باب الا فتداء سنن رسول اللہ ﷺ ح : (7688) وصحیح مسلم کتا ب الحج باب فر ض الحج مرۃ فی العمر ح : (1337)
"جب میں تمہیں کو حکم دوں تو مقدور بھر اس کی اطاعت بجا لا ئو ۔" سلسل البول کے مریض کو احتیا ط کر نی چا ہئے کہ پیشاب اس کے کپڑوں جسم اور نماز کی جگہ کو نہ لگے یا د رہے تیمم بھی ہر اس چیز سے با طل ہو جاتا ہے جس سے وضوء با طل ہو تا ہے نیز پا نی کے استعما ل کی قدرت کے حاصل ہو نے یا معدوم ہو نے کی صورت میں پا نی کے مل جا نے سے بھی تیمم باطل ہو جا ئے گا ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب