اسلا می نقطہ نگا ہ سے مو نچھوں کی کیا صورت ہو نی چا ہئے ؟ہم نے بعض فا ضل علما ء سے یہ سنا ہے کہ یہ بھی بدعت اور با لوں کا مثلہ ہے کہ مونچھوں کو با لکل منڈوا دیا جا ئے جب کہ حا فظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعا د میں اس با ت کو تر جیح دی ہے کہ ہو نٹ کے زید با ل لینے کی نسبت یہ افضل ہے کہ ساری مونچھیں منڈوادی جا ئیں تو سوال یہ ہے کہ ان میں کو ن سی صورت افضل اور راجح ہے ؟
صحیح بخا ری اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فر ما یا :
"مشرکو ں کی مخالفت کرو داڑھیا ں بڑھا ئو اور مونچھیں کترائو ۔"اور حضرت انس سے مر وی ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لئے وقت کا تعین فر ما دیا کہ مونچھیں کا ٹنے نا خن ترا شنے زیر بغل با ل صاف کر نے اور زیر نا ف با ل صاف کر نے پر چا لیس سے زیا دہ نہیں گزرنے چا ہئیں ۔"صحیح مسلم میں ہی ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا
مو نچھیں کٹوا ئو داڑھیا ں بڑھا ئو اور مجو سیں کی مخا لفت کر و ۔"ترندی نے بروا یت زید بن ارقم بیا ن کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا
"جو شخص اپنی مو نچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔"(امام ترندی نے فر ما یا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے )ابن عبدالبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسن بن صا لح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے سما ک بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی مونچھوں کو کترایا کر تے تھے اور بیا ن فر ما یا کر تے تھے۔کہ حضرت ابراہیمعلیہ السلام بھی اپنی مو نچھوں کو کترا یا کر تے تھے ۔ (محدثین کی ایک جماعت نے اس روایت کو حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مو قوف قرار دیا ہے )۔ان حدیث میں یہا ں دولفظ استعما ل ہو ئے ہیں ایک ہے "احفا ء " جس کے معنی خوب اچھی طرح مونڈنا دوسرا ہے "قص " جس کے معنی قینچی وغیرہ سے کا ٹنے ہیں لہذا اس مسئلہ میں شرعا دوطرح اختیا ر ہے لہذا ہماری را ئے میں یہ کہنا جا ئز نہیں کہ مو نچھوں کو خو ب اچھی طرح مو نڈنا مثلہ یا بدعت ہے کیو نکہ ایسا کہنا مذکو ہ نص کے خلا ف ہے اور رسو ل اللہ ﷺ کی سنت صحیحہ کی مو جو د گی میں کسی کے قو ل کی کو ئی اہمیت نہیں ہے ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب