سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) رات کے آخری حصے میں نزول باری تعالی سے کیا مراد ہے؟

  • 852
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1924

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ معلوم ہے کہ رات کرئہ ارض پر گھومتی رہتی ہے اور اللہ عزوجل آسمان دنیا پر اس وقت نزول فرماتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، تو اس کا مفہوم تو یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ ساری رات ہی آسمان دنیا پر ہوتا ہے، اس اشکال کا کیا جواب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ان اسماء وصفات پر ایمان رکھیں جن کے ساتھ اس نے اپنی ذات پاک کو اپنی کتاب یا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی موسوم و موصوف قرار دیا ہے اور اس بارے میں قطعاً کسی تحریف ،تعطیل ، تکییف یا تمثیل سے کام نہ لیں۔ تحریف کا تعلق نصوص سے ہے، تعطیل کا اعتقاد سے، تکییف کا صفت سے اور تمثیل کا بھی صفت سے ہے، البتہ یہ تکییف کی نسبت زیادہ خاص ہے کیونکہ تکییف مماثلت کے ساتھ مقید ہوتی ہے، لہٰذا واجب ہے کہ ان چاروں ممنوعات سے ہمارا عقیدہ پاک ہو۔ اور یہ بھی واجب ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور اس کے اسماء وصفات کے بارے میں ’’کیوں‘‘ اور کیسے‘‘؟ سوالات سے باز رکھے۔ اور اسی طرح کیفیت کے بارے میں سوچنے سے بھی بندہ اپنے آپ کو روکے چنانچہ جو شخص یہ طریقہ اختیارکرکے زندگی گذارے گا وہ چین وسکون  محسوس کرے گا۔ سلف رحمہم اللہ  کا اس بارے میں یہی طریقہ تھا۔ ایک شخص امام مالک بن انس رحمہ اللہ  کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے ابوعبداللہ! (اللہ کا فرمان ہے:) ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ تو سوال یہ ہے کہ وہ عرش پر کیسے مستوی ہوا؟ آپ نے سر جھکا لیا، پسینے سے شرابور ہوگئے اور فرمانے لگے: «اَلْاِسْتَوَائُ غَیْرُ مَجْهوْلٍ، وَالْکَیْفُ غَیْرُ مَعْقُولٍ، وَالْاِیْمَانُ بِه وَاجِبٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْه بِدْعَة وَمَا اَرَاکَ اِلاَّ مُبْتَدِعًا» ’’استواء مجہول نہیں ہے لیکن اس کی کیفیت عقل میں نہیں آسکتی، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور میرے خیال میں تم بدعتی ہو۔‘‘

اس شخص نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر رات کو اس وقت نزول فرماتا ہے جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ ساری رات ہی آسمان دنیا پر رہتا ہے کیونکہ رات تو ساری زمین پر گھومتی ہے، لہٰذا ثلث (رات کا تہائی حصہ) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  میں سے کسی نے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھا تھا۔ اگر کسی فرمانبردار مومن کے دل میں یہ سوال آتا تو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرما دیتے۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک ہماری جہت میں رات کا ثلث اخیر باقی رہتا ہے تو اس میں نزول بھی باقی رہتا ہے اور جب ہماری جہت میں رات بیت جاتی ہے تو نزول بھی ختم ہو جاتا ہے لیکن ہمیں نزول باری تعالیٰ کی کیفیت کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہمارا علم اس کا احاطہ کر سکتا ہے، البتہ ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور کہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم نے اتباع واطاعت کو اختیار کر لیا ، ہمارا فرض بھی یہی بنتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ92

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ