کچھ لو گ علم نہ ہو نے کے با وجود فتوی دیتے ہیں ان کے با ر ے میں کیا حکم ہے ؟
یہ عمل بہت خطر نا ک اور کبیرہ گناہ ہے علم کے بغیر با ت کو اللہ تعالیٰ نے شر ک کے سا تھ بیا ن کیا ہے ارشاد بار ی تعا لیٰ ہے :
(ا ے پیغمبر ') کہہ دیجیے کہ میرے پر ور دگا ر نے تو بے حیا ئی کی با تو ں کو ظا ہر ہو ں یا پو شیدہ اور گناہ کو اور نا حق زیادتی کر نے کو حرا م کیا ہے اور اس کو بھی (حرا م کیا ہے ) کہ تم کسی کو اللہ کا شر یک بنا ئو جس کی اس نے کو ئی سند نا زل نہیں کی اور اس کو بھی (حرا م کیا ہے ) کہ اللہ کے با ر ے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں ۔"یہ حکم سب کو شا مل ہے کہ اللہ کی ذا ت کے با ر ے میں یا اس کی صفا ت کے با ر ے میں یا اس کے افعا ل کے با ر ے میں یا اس کے شرعی احکا م کے با ر ے میں علم کے بغیر با ت کر نا منع ہے کسی شخص کے لئے بھی اس وقت تک کسی چیز کے با ر ے میں فتو ی دینا جا ئز نہیں جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ اس کے با ر ے میں اللہ تعا لی کی شریعت کا حکم کیا ہے اور اس کے لئے اس کے پا س اس ملکہ کا ہو نا بھی ضروری ہے جس سے وہ کتا ب اللہ اور سنت رسو ل اللہ ﷺ کے نصوص کے معنی و مفہوم کو بھی سمجھ سکے جب اس میں یہ ملکہ پیدا ہو جا ئے تو پھر وہ فتوی دے سکتا ہے مفتی درحقیقت اللہ تعا لی کی تر جما نی کر تا اور نبی ﷺ کے ارشاد ات کو آگے پہنچا تا ہے لہذا اگر وہ کو ئی با ت علم کے بغیر کہتا ہے یا نظر اجتہاد اور دلا ئل پر غور کی روشنی میں حاصل ہو نے والے ظن غا لب کے بغیر کہتا ہے تو اس نے علم کے بغیر اللہ تعا لی اور اس کے رسو ل اللہ ﷺ کی طر با ت منسوب کر نے کے جر م کا ارتکا ب کی لہذا اسے سزا کے لئے تیا ر رہنا چاہیے ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے ۔
"تو اس شخص سے زیا دہ کو ن ظلم ہے جو اللہ پر جھوٹ افترا ء کر ے تا کہ ازراہ بے دانشی لو گو ں کو گمرا ہ کر ے کچھ شک نہیں کہ اللہ ظا لم لوگوں کو ہدا یت نہیں دیتا ۔"
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب