بحوث العلمیہ والا فتا ء کی فتوی کمیٹی کے سا منے یہ سوال پیش کیا گیا جو عزت مآب ڈائر یکٹر جنرل کی خدمت میں پیش ہو ا تھا اور جس کا مضمون یہ ہے کہ فرقہ شا ذلیہ سے وا بستہ لو گ نما ز پڑھتے ہیں نہ روز ہ رکھتے ہیں اور نہ ہی زکوۃ ادا کر تے ہیں اپنے مر شد جیسے یہ سید نا '' کہہ کر پکا راتے ہیں کے با ر ے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ رب کے قائم مقام ہے وہی آ خر ت کے دن ان کا کفیل ہو گا اس نے ان کے دنیا کے ہر عمل کو معا ف کر دیا ہے یہ لو گ ہر ہفتہ سو موار اور جمعہ کی رات جمع ہو تے ہیں ؛ میرا با پ مجھے اس فرقہ کے سا تھ وابستگی پر مجبور کر تا ہے اور جب میں روزہ رکھو ں یا نما ز پڑھو ں تو وہ نا را ض ہو تا ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ ہما رے سید نے ہمارے لئے سب کچھ معا ف کر دیا ہے اس نے ہمیں جہنم کے عذا ب سے بچا لیا ہے یعنی ہم یقینی طور پر جنتی ہیں لیکن میں جا نتا ہو ں کہ اس کی یہ با ت یقینی غلط ہے کیو نکہ وہ ہمارے جیسا انسا ن ہی ہے لہذا میری رہنما ئی فر ما یئے کہ میں کیا کر وں ؟ میں جا نتا ہوں کہ اللہ میرا رب ہے ۔حضرت محمد ﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اسلام میرا دین ہے میں اسلام کے ارکا ن خمسہ کی بھی پا بند ی کرتا ہو ں لیکن اگر میں اپنے با پ کی اطا عت کر و ں تو اپنے رب کے احکا م کا مخا لف ٹھہروں گا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فر مایا ہے ۔
ان کو اف تک نہیں کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا ''
اور اگر میں اپنے با پ کی اطاعت نہ کر و ں تو مجھ سے ہمیشہ نارا ض رہے گا اور مجھ سے جھگڑتا رہے گا کہ میں اس طریقہ کو کیو ں اختیا ر نہیں کر تا دوسر ی طرف میر ی حا لت یہ ہے کہ میں اپنے لئے کچھ کما نہیں سکتا میری والدہ کے سوا خا ندان میں کو ئی نہیں اور کو ئی میری مدد بھی نہیں کر سکتا لہذا براہ کر م میری را ہنما ئی فر ما ئیں کہ میں اپنے رب کو کس طرح را ضی کر وں اور اپنے با پ کی نا را ضی سے کس طرح بچوں نماز روزے یا صحیح الفا ظ کے مطا بق دین اسلام ہی کا مخا لف ہے ؟
کمیٹی نے اس سوال کا حسب ذیل جوا ب دیا کہ ؛اگر امر واقعہ اس طرح ہے تم نے ذکر کیا ہے کہ تمہا را وا لد اور اس کے سا تھ اس طریقہ میں شا مل لو گ نماز پڑھتے ہیں نہ روزے رکھتے ہیں اور اعتقا د یہ رکھتے ہیں کہ ان کا سید یا شیخ رب کے قا یم مقا م ہے ۔ جو ان کے لئے جنت کا ضا من ہے اور وہ ان کے تمام برے اعما ل کو معا ف کر دے گا تو وہ کا فر ہیں اگر تمہا را با پ تمہیں ان میں شا مل ہونے کا حکم دے اور نما ز روزے کی پا بند ی سے منع کر ے تو اس کی بات با لکل نہ ما نو کیو نکہ خا لق کی نا فر ما نی میں مخلوق کی اطا عت نہیں ہے بلکہ کے حکم کی اطا عت کیجیے اور اس کی نا فر ما نی سے اجتنا ب کیجیے اور حسب ذیل ارشا د با ری تعا لیٰ پر عمل کے مطا بق دنیا کے کا مو ں میں ان کے سا تھ شریک رہے
اور ہم نے انسا ن کو جسے اس کی ما ں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھا ئے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلا تی )اور (آ خر کا ر ) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہو تا ہے ( اسے ) اس کے ما ں با پ کے با ر ے میں تا کید کی ہے کہ میرا بھی شکر کر تا رہ اور اپنے ما ں با پ کا بھی (کہ تم کو ) میری ہی طرف لو ٹ کر آتا ہے اور اگر وہ تیرے درپے ہو ں کہ تو میرے سا تھ کسی ایسی چیز کو شر یک کر ے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ما ننا ہا ں دنیا (کے کا مو ں ) میں ان کا اچھی طرح سا تھ دینا اور جو شخص میر ی طر ف رجو ع کر ے اس کے راستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لو ٹ کر آتا تو جو کا م تم کر تے رہے ہو میں سب سے تم کو آگا ہ کر دوں گا ؛؛ آپ سچے مو من لو گو ں کے سا تھ رہ کر ان عقا ئد کو اختیا ر کیجیے جن کے اختیا ر کر نے کا اللہ تعالیٰ ٰ نے حکم دیا ہے رسو ل اللہ ﷺ نے جن کی وضا حت فر ما ئی ہے کتا ب اللہ اور سنت رسو ل اللہ ﷺ پر عمل کیجیے اللہ تعا لیٰ کے راستہ میں جو تکلیف آئے اسے بر داشت کیجیے اللہ کی طرف رجو ع کر نے والو ں کے راستہ پر چلئے کہ یہی راستہ بہتر اور انجا م کے اعتبا ر سے بھی بہت اچھا ہے فر قہ شا ذلیہ کے لو گو ں کو چھوڑ دیجیے کیو نکہ کہ ڈر ہے کہ یہ لو گ آپ کو گمراہ کر دیں گے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے روزی کما نے کا کو ئی زریعہ پیدا فر ما دے گا جس سے آپ زند گی بسر کر سکیں گے کیو نکہ رزق تو اللہ تعالیٰ کے ہا تھ میں ہے آپ کے والد کے ہا تھ میں ہے نہ کسی اور انسا ن کے ہا تھ میں
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب