کیا بیٹا مرشد عطا ء کرتا ہے ؟ کیا مرشد رزق میں کمی بیشی کرتا ہے؟جو شخص یہ اعتقا د کر رکھے اس کے با رے میں کیا حکم ہے ؟
جو شخص یہ اعتقا د رکھے کہ اسے اللہ کے سوا کسی اور نے بیٹا دیا یا اللہ تعا لیٰ کے سوا رزق میں کو ئی اور کمی بیشی کر سکتا ہے تو وہ مشرک ہے اور اس کا شرک زما نہ جا ہلیت کے عر بو ں کے شرک سے بھی بڑا ہے کیونکہ عر بو ں وغیرہ سے زما نہ جا ہلیت سے یہ پو چھا جا تا تھا کہ انہیں آسمان اور زمین سے رزق کو ن دیتا ہے ؟ یا مرد ہ سے زندہ یا زندہ سے مرد ہ کو ن نکالتا ہے ؟ تو وہ کہتے تھے کہ یہ سب کا م اللہ کر تا ہے وہ اپنے معبو د ان با طلہ کی عبا دت اس لئے کر تے تھے کہ ان کا گما ن یہ تھا کہ یہ انہیں اللہ تعا لیٰ کے قر یب کر دیتے ہیں ۔ ارشا د با ری تعا لیٰ ہے ۔
( ان سے )پو چھو کہ تم کو آسما ن اور زمین سے رزق کو ن دیتا ہے یا (تمہارے ) کا نو ں اور آنکھو ں کا ما لک کون ہے اور بے جا ن سے جاندار کو پیدا کر تا ہے اور جا ن دار سے بے جا ن کو ن پیدا کر تا ہے اور دنیا کے کا مو ں کا انتظا م کو ن کر تا ہے ؟جھٹ کہہ دیں گے کہ'' اللہ ''تو پھر پو چھئے کہ تم (اللہ سے)ڈرتے کیو ں نہیں ۔''اور فر ما یا
اور جن لو گو ں نے اس کے سوا دوست بنا ئے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ ) ہم ان کو اس لئے پو جتے ہیں کہ کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دئیں تو جن با تو ں میں یہ اختلا ف کر تے ہیں ۔ کہ اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر د ے گا بے شک اللہ اس شخص کو جھوٹا اور نا شکرا ہے ہدا یت نہیں دیتا ۔'' نیز فر ما یا
''بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کر لے تو کو ن ہے جو تم کو رزق دے ؟''
سنت سے یہ ثا بت ہے کہ دینا یا نہ دینا یہ صرف اللہ وحدہ کا اختیا ر ہے جیسا کہ حضرت الا ما م بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح کے (با ب الذکر بعدالصلاۃ) میں بیا ن کیا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب ورا د بیا ن کر تے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معا ویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نا م خط لکھوا یا کہ نبی کریم ﷺ ہر فر ض نما ز کے بعد یہ دعا ء پڑھا کر تے تھے :
''اللہ کے سوا کو ئی بھی عبادت لا ئق نہیں ہے ۔ وہ اکیلا ہے کو ئی اس کا سا تھی نہیں اسی کا سا را ملک ہے اسی کی سا ری تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قا در ہے ۔اے اللہ ؛جو تو عطا ء فر ما ئے اس کو کو ئی روکنے وا لا نہیں اور جو تو نہ دے اس کا کو ئی دنے وا لا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی دولت (تیری پکڑ سے ) نہیں بچا سکتی ''۔اما م مسلم نے بھی اپنی ''صحیح ''میں اسی طرح ذکر فر ما یا ہے ہا ں یہ ضرورہے کہ اولا د تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا ء فر ما تا ہے لیکن اس بندے کے اپنے اللہ سے دعاٰ ء کر نے کی وجہ سے اس کی اولاد کے رزق میں وسعت عطاء فر ما دیتا ہے۔ جس طرح سورۃ ابرا ہیم سے واضح ہے کہ حضرت ابرا ہیم خلیلعلیہ السلام نے دعا ء کی اور اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فر ما یا سورۃ مر یم انبیا ء علیہ السلام میں ہے کہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا ء کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا ء کو بھی شرف قبولیت سے نوا زا اسی طرح حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرما تے ہو ئے سنا کہ
جس شخص کو یہ با ت پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت اور اس کی عمر میں درازی ہو تو اسے صلہ رحمی سے کا م لینا چا ہیے ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب