سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) اصحاب قبور سے دعا کرنا کیسا ہے؟

  • 849
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1848

سوال

(70) اصحاب قبور سے دعا کرنا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اصحاب قبور سے دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

دعا کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:

۱۔ دعائے عبادت: مثلاً: نماز، روزہ اور دیگر عبادات۔ چنانچہ انسان جب نماز پڑھتا یا روزہ رکھتا ہے، تو وہ زبان حال سے اپنے رب تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ اسے معاف فرما دے، اسے عذاب سے بچالے اور اپنے رزق سے نواز دے۔ اس کی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقالَ رَبُّكُمُ ادعونى أَستَجِب لَكُم إِنَّ الَّذينَ يَستَكبِرونَ عَن عِبادَتى سَيَدخُلونَ جَهَنَّمَ داخِرينَ ﴿٦٠﴾... سورة غافر

’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص کسی قسم کی بھی عبادت غیر اللہ کے لیے سر انجام دے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر انسان کسی چیز کے لیے رکوع یا سجدہ کرے اور رکوع وسجود میں اس کی ٹھیک اس طرح تعظیم بجا لائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی جاتی ہے تو وہ مشرک ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا، اسی لیے شرک کے سدباب کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ملاقات کسی کے آگے جھکنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ آپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنے بھائی سے ملاقات کرتا ہے کہ کیا وہ اس کے آگے جھکے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘(جامع الترمذي، الاستئذان، باب ماجاء فی المصافحۃ، حدیث: ۲۷۲۸)

اور بعض جاہل لوگ جو یہ کرتے ہیں کہ سلام کہتے ہوئے جھک جاتے ہیں، تو یہ غلطی ہے آپ کے لئے ضروری ہے کہ ایسا کرنے والے کو آپ صحیح بات بتائیں اور اسے اس فعل سے منع کریں۔

۲۔ سوال کے لیے پکارنا: اس کی ساری صورتیں شرک نہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے:

٭           جس کو پکارا جا رہا ہو، اگر وہ زندہ اور اس کام کے کرنے پر قادر ہو تو یہ شرک نہیں ہے، جیسا کہ جو شخص آپ کو پانی پلا سکتا ہو، اس سے یہ کہنا کہ مجھے پانی پلاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ دَعَا کُمْ فَاَجِيْبُوهُ»(صحیح البخاري، بمعناہ، النکاح، باب اجابة الولیمة والدعوة، ح:۵۱۷۳ وصحیح مسلم، النکاح، باب الامر باجابة الداعی الی الدعوة، ح:۱۴۲۹ وسنن ابي داؤد، الزکاة، باب عطیة من سال باللہ عزوجل، ح: ۱۶۷۲ واللفظ له، ولفظ البخاری ومسلم: اذا دعی احدکم الی الولیمة فلیاتها)

’’جو شخص تمہیں دعوت دے، اس کی دعوت قبول کر لو۔‘‘

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا حَضَرَ القِسمَةَ أُولُوا القُربى وَاليَتـمى وَالمَسـكينُ فَارزُقوهُم مِنهُ...﴿٨﴾... سورة النساء

’’اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار، یتیم اور محتاج آجائیں ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو۔‘‘

اگر فقیر اپنا ہاتھ پھیلائے اور کہے کہ مجھے بھی دو تو یہ جائز ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿فَارزُقوهُم مِنهُ...﴿٨﴾... سورة النساء

’’ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو۔‘‘

٭           جس کو پکارا جا رہا ہو اگر وہ مردہ ہو تو اسے پکارنا شرک ہے، جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔

افسوس کہ بعض اسلامی ممالک میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں قبر والا، جو اپنی قبر میں ایک بے جان لاشہ ہوتا ہے یا شاید اسے زمین نے کھا پی کر برابر کردیاہو اب اس کا وجودتک نہ ہو، نفع ونقصان کا مالک ہے یا بے اولاد کو اولاد دے سکتا ہے۔ (العیاذ باللہ) یہ شرک ہے، جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا اقرار شراب نوشی، زنا اور لواطت کے اقرار سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ یہ محض فسق ہی نہیں بلکہ کفر کا اقرار ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اصلاح احوال کی توفیق عطا فرمائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ142

محدث فتویٰ

تبصرے