سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(184) آٹھویں سوال

  • 8478
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1309

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آٹھویں:

﴿إِذ قالَ اللَّهُ يـعيسى إِنّى مُتَوَفّيكَ وَر‌افِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُ‌كَ مِنَ الَّذينَ كَفَر‌وا...٥٥﴾... سورة آل عمران

 اس وقت  اللہ   نے فر ما یا  کہ  عیسیٰ علیہ السلام  میں  تمہا ری  دنیا   میں   رہنے  کی مد ت  پو ر ی     کر کے    تم  کو اپنی  طرف  اٹھا لوں  گا ۔ اور تمہیں  کافروں  (کی صحبت ) سے پا ک کر دوں گا ''


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قاد یا نیوں  نے آیت سے جو استدلال   کیا ہے کہ ماضی میں حضرت عیسیٰ کی وفا ت ہو چکی ہے تو یہ سلف سے منقو ل  اس آیت کی تفسیر کے خلاف ہے  کیو نکہ انہوں نے  اس کی تفسیر   یہ کی ہے کہ  اس کے معنی  اللہ تعالیٰ ٰ  کا  حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو  زمین  سے لینا  آسمان  پر زندہ  اٹھا نا اور کا فروں  سے نجات دینا ہے ۔  اسی تفسیر ہی سے اس آیت اور  کتا ب و سنت  کے ان تما م صحیح  نصو ص میں  تطبیق  کی صورت  ممکن ہے  جو اس با ت  پر دلالت   کنا ں ہیں کہ حضرت  عیسٰی علیہ السلام   کو آ سمانوں  پر  زندہ  اٹھا لیا  گیا  ہے ۔ وہ آ خر زمانے   میں  نا زل  ہو ں گے  اور ان  کے نزول کے مو قع  پر تمام اہل کتاب  اور دیگر سب لو گ  ان پر ایمان  لے آئیں  گے ۔  حضرت  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے  اس آیت کی  تفسیر  میں جو  تو فی  بمعنی  وفات  منقول  ہے اس روا یت  کی سند صحیح    نہیں  کیو نکہ وہ منقطع ہے آپ سے اسے روایت کر نے وا لے  علی  بن ابی  طلحہ ہیں   جنہوں  نے آپ کو دیکھا نہ ان کا آپ سے  سماع ثا بت  ہے  اسی طرح  وہب  سے بن  منبہ یما نی  سے تو فی  کی تفسیر  جو  وفا ت سے منقو ل ہے  تو اس روا یت کی سند بھی صحیح نہیں ہے اسے محمد  بن اسحا ق نے وہب  سے ایک  ایسے  شخص  کے واسطہ  سے روا یت  کیا ہے جو غیر متہم ہے لیکن ایک تو ابن  اسحا ق  نے  اس روا یت  عنعنہ سے  بیا ن کیا ہے اور وہ مدلس ہے لہذا  اس کی معنعن روایت  قبول نہیں اور دوسرے یہ راوی  جسے  غیر  متہم  کہا گیا  یہ  مجہول ہے  پھر اس تفسیر کو اگر درست مان بھی لیا جا ئے  تو اس کے معنی   زیدا ہ سے زیادہ  یہ ہو ں گے   کہ توفی  کے معنی  میں  ایک یہ بھی احتمال  ہے  کیو نکہ تو فی  کے یہاں  کئی  معنی  بیا ن کئے گئے ہیں   اس کے ایک معنی  یہ ہیں  کہ اللہ تعالیٰ  نے انہیں زمین سے    جسم و روح  کے سا تھ  پکڑ لیا  اور پھر انہیں  اپنی طرف زندہ  اٹھا لیا  دوسرے  اس کے معنی  یہ  کئے گئے  ہیں  کہ اللہ تعالیٰ ٰ نے ان پر نیند طاری کر کے   انہیں اوپر اٹھا لیا    اور  پھر رفع کے بعد اور آخر  زمانہ  میں نزول کے بعد انہین فوت کر ے گا کیو نکہ وائو  ترتیب  کی متقا ضی  نہیں ہو تی  یہ صر ف  دوا مر و ں  کو جمع  کرنے  کی متقا ضی ہو تی ہے ۔ اصول  یہ ہے کہ جب ایک آیت کے  معنی کے با رے میں   اقوال مختلف ہوں  تو اس قول کو اختیا ر کر نا وا جب ہو تا ہے   جو دیگر ظا ہر دلائل سے   ہم آہنگ  ہو تا کہ تما م دلائل  میں تطبیق  پیدا ہو جا ئے  اور متشا بہ  کو محکم  کی طرف لو ٹا دیا جا ئے   چنانچہ راسخ فی العلم  علما ء کا یہی معمول ہو تا ہے  ہاں البتہ کج روی   اختیا ر  کر نے والوں   کی  راہ دوسر ہو تی  ہے کہ وہ فتنہ  و تاویل  کے پیچھے  پڑے  رہتے  ہیں  اللہ تعالیٰ ٰ   ہمیں  ان  کے  شر سے محفو ظ  رکھے ،(آمین)

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ