ان سوا لا ت کے سا تھ کچھ ایسی نصو ص بھی ہیں جن سے قا دیا نی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفا ت اور تد فین پر استدلال کر تے ہیں امید ہے آپ ان نصوص کی وضا حت بھی فر ما ئیں گے اور یہ بھی کہ ہم ان کا کیا جوا ب دیں ؟
پہلی:
مسیح ابن مر یم علیہ السلام تو صرف (اللہ کے) پیغمبر تھے ان سے پہلے بھی بہت سے رسو ل گزر چکے تھے اور ان کی والدہ (مر یم اللہ کی ) ولی ( اور سچی فرماں بردار ) تھیں دونوں ( انسا ن تھے اور) کھا نا کھا تے تھے
اس آیت سے مقصود ان لو گو ں کی تردید ہے جنہوں نے کہا تھا
مر یم کے بیٹے (عیسیٰؑ) مسیح علیہ السلام اللہ ہیں ۔نیز جنہوں نے یہ کہا تھا :
کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے ؛ تو اس آیت میں یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام رب یا الٰہ نہیں ہیں کہ ان کی عبا دت کی جا ئے بلکہ وہ اللہ تعا لیٰ کے پیغمبر ہیں جنہیں اللہ تعا لیٰ نے نبوت و رسا لت سے سر فراز فر ما یا تھا وہ بھی انہی رسو لوں کے مانند ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی اجل محدود ہے لیکن اس آیت نے یہ نہیں بتا یا کہ وہ فوت کب ہوں گے؟ ہا ں البتہ کتا ب و سنت کے ان دلائل سے جو ہم قبل ازیں بیا ن کر آئے ہیں یہ ضرور ثا بت ہو تا ہے کہ انہیں زندہ آسمانو ں پر اٹھا یا گیا تھا اور وہ عنقریب حا کم و عادل کی حیثیت نازل ہو ں گے آ خر زمانہ میں نزول اور لو گوں میں حکومت کر نے کے بعد پھر وفات پا ئیں گے پھر اللہ تعا لیٰ نے یہ ذکر فر مایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ علیہ السلام دونوں کھانا کھا یا کر تے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دونوں الہ نہیں تھے کیونکہ انہیں تو اپنی زندگی کی حفا ظت کے لئے کھا نا کھا نے کی ضرورت تھی جب کہ اللہ تعا لیٰ کی ذا ت گرا می فرد صمد اور غنی مطلق ہے اس کائنات کا زرہ زرہ اس کی بارگاہ کا محتا ج ہے اور وہ کسی کا محتا ج نہیں ہے اس آیت کریمہ کا سیا ق و سباق بھی اس معنی کی تا ئید کر تا ہے چنا نچہ اس سے پہلے یہ زکر ہے ، کہ :
بلا شبہ وہ لوگ کا فر ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ مسیح ابن مر یم علیہ السلام ہی ہے ؛ نیز یہ زکر ہے کہ :
وہ لو گ ( بھی )کا فر ہیں جو اس با ت کے قا ئل ہیں کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے ''اور اس کے بعد اس آیت میں دین میں غلو سے منع کیا گیا ہے غیر اللہ کی عباد ت کا انکار کیا گیا ہے جو شخص ایسا کرے یا دیکھ کر سکو ت اختیا ر کر ے اور اس سے منع نہ کرے نیز اس پر لعنت کی گئی ہے اس کی وضا حت سورۃ الا نعا م کی اس آیت سے بھی ہو تی ہے ۔
''اے پیغمبر؛ کہہ دیجیے کیا میں اللہ کو چھو ڑ کر کسی (اور ) کو مدد گاربنائوں کہ ( وہی ) تو آسمانوں اور زمین کا پیدا کر نے وا لا ہے اور وہی (سب کو ) کھا نا دیتا ہے اور خو د کسی سے کھا نا نہیں لیتا،''
دوسری آیت
اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں سب کھا نا کھا تے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ؛اس آیت سے مقصود ان لو گو ں کی تر دید ہے جنہوں نے حضرت محمد ﷺ کی نبو ت و رسا لت کا انکار کیا تھا اور کہا کہ رسو ل تو فرشتوں میں سے ہو تا ہے انسا نوں میں سے نہیں تو اس کی ترد ید کر تے ہو ئے اللہ تعا لیٰ نے فر مایا کہ رسو لو ں کے با ر ے میں اللہ سبحا نہ وتعا لیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ انہیں انسا نو ں ہی میں سے منتخب کیا جا تا ہے اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کی اجل تحدید کو بیا ن نہیں کیا گیا جب کہ دیگر آ یا ت و احا دیث نے یہ بیا ن کیا ہے کہ آپ کو آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا گیا پھر آ پ آخر زما نے میں ناز ل ہو ں گے اور پھر وفا ت پا ئیں گے جیسا کے قبل ازیں بیا ن کیا جا چکا ہے ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب